صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
128. بَابُ تَقْصِيرِ الْمُتَمَتِّعِ بَعْدَ الْعُمْرَةِ:
باب: تمتع کرنے والا عمرہ کے بعد بال ترشوائے۔
حدیث نمبر: 1731
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ أَمَرَ أَصْحَابَهُ أَنْ يَطُوفُوا بالبيت وَبِالصَّفَا والمروة، ثُمَّ يَحِلُّوا وَيَحْلِقُوا أَوْ يُقَصِّرُوا".
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، ان سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں کریب نے خبر دی، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو یہ حکم دیا کہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنے کے بعد احرام کھول دیں پھر سر منڈوا لیں یا بال کتروا لیں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1804  
´حج قران کا بیان۔`
مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1804]
1804. اردو حاشیہ: حج قران کے لیے تلبیہ میں یہ جائز ہے کہ کسی وقت «لبیک بحجة» ‏‏‏‏ کہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1804   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1731  
1731. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ مکہ معظمہ تشریف لائے تو اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کریں، پھر احرام کھول دیں، اس کے بعد بال منڈوائیں یا چھوٹے کروائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1731]
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ نے ہر دو کے لیے اختیار دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں امور جائز ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1731   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1731  
1731. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب نبی ﷺ مکہ معظمہ تشریف لائے تو اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کریں، پھر احرام کھول دیں، اس کے بعد بال منڈوائیں یا چھوٹے کروائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1731]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو اختیار ہے، خواہ حلق کرے یا قصر لیکن اس میں تفصیل ہے:
اگر حج سے اتنا عرصہ پہلے عمرہ کیا کہ حج کے وقت دسویں تاریخ کو بال دوبارہ اُگ آئیں تو اس کے لیے حلق بہتر ہے۔
اگر بال اُگنے کا امکان نہ ہو تو بال چھوٹے کرا دے تاکہ حج کا موقع پر دسویں تاریخ کو حلق ہو سکے۔
(فتح الباري: 715/3)
واللہ أعلم۔
(2)
اس بات پر اتفاق ہے کہ حج اور عمرے میں بال چھوٹے کرانا بھی جائز ہے اور ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
ابن منذر نے حسن بصری ؒ سے نقل کیا ہے کہ جس نے پہلی دفعہ حج کیا ہو اس کے لیے حلق ضروری ہے، بال چھوٹے کرانے سے کام نہیں چلے گا لیکن ابن منذر کی مذکورہ بات محل نظر ہے کیونکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حسن بصری ؒ نے فرمایا:
جس نے پہلے حج نہ کیا ہو اسے اختیار ہے چاہے بال منڈوائے یا قصر کرے۔
(عمدةالقاري: 345/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1731