صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
129. بَابُ الزِّيَارَةِ يَوْمَ النَّحْرِ:
باب: دسویں تاریخ میں طواف الزیارۃ کرنا۔
وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزِّيَارَةَ إِلَى اللَّيْلِ، وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي حَسَّانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَزُورُ البيت أَيَّامَ مِنًى.
‏‏‏‏ اور ابوالزبیر نے عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف الزیارۃ میں اتنی دیر کی کہ رات ہو گئی اور ابوحسان سے منقول ہے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف الزیارۃ منی کے دنوں میں کرتے۔
حدیث نمبر: 1732
وَقَالَ لَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّهُ طَافَ طَوَافًا وَاحِدًا، ثُمَّ يَقِيلُ، ثُمَّ يَأْتِي مِنًى يَعْنِي يَوْمَ النَّحْرِ" وَرَفَعَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ.
اور ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے صرف ایک طواف الزیارۃ کیا پھر سویرے سے منیٰ کو آئے، ان کی مراد دسویں تاریخ سے تھی، عبدالرزاق نے اس حدیث کا رفع (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک) بھی کیا ہے۔ انہیں عبیداللہ نے خبر دی۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1732  
1732. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نےدسویں ذوالحجہ کو ایک طواف کیا، اس کے بعد قیلولہ فرمایا پھر منیٰ آئے۔ عبدالرزاق نے اس روایت کو مرفوع ذکر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں عبید اللہ نے خبردی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1732]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ روایت سیدنا ابن عمر ؓ سے موقوفا اور مرفوعا دونوں طرح ثابت ہے۔
گویا ابن عمر نے خود بھی ایسے کیا اور رسول اکرم ﷺ کا عمل بھی ذکر کیا، تاہم مرفوع روایت میں ہے کہ پھر آپ وہاں سے لوٹے تو نماز ظہر منیٰ میں ادا فرمائی۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر مکہ مکرمہ میں ادا کی تھی۔
محب الدین طبری نے ان کے درمیان ایسے تطبیق دی ہے:
ممکن ہے کہ آپ نے مکہ مکرمہ یا منیٰ میں اکیلے نماز ظہر ادا کی ہو، پھر دوسرے مقام پر اپنے صحابہ کرام ؓ کو باجماعت پڑھائی ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے منیٰ میں اپنے صحابہ کرام ؓ کو ظہر کی نماز پڑھائی ہو، پھر آپ نے بیت اللہ کا طواف زیارت کیا ہو اور وہاں پھر اپنے ان صحابہ کرام کو نماز ظہر باجماعت پڑھائی ہو جنہوں نے ابھی تک نماز نہ پڑھی ہو۔
(عمدةالقاري: 347/7)
واللہ اعلم۔
(2)
واضح رہے کہ دسویں تاریخ کو کنکریاں مارنے کے بعد احرام کی پابندیاں کچھ نرم ہو جاتی ہیں بشرطیکہ غروب آفتاب سے پہلے پہلے طواف زیارت کر لیا جائے۔
اگر دن غروب ہونے سے قبل طواف نہ کر سکا تو احرام کی پابندی دوبارہ لوٹ آئے گی، پھر طواف زیارت کے بعد احرام کھولنا ہو گا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1999)
حضرت ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ دسویں ذوالحجہ کو رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے تو وہب بن زمعہ نے قمیص پہن رکھی تھی۔
آپ ﷺنے پوچھا:
کیا تم نے طواف افاضہ کر لیا ہے؟" اس نے کہا:
نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
قمیص اتار کر احرام پہن لو، یہ رخصت اس صورت میں ہے جب شام سے پہلے پہلے طواف کر لیا جائے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1999)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1732