صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
132. بَابُ الْخُطْبَةِ أَيَّامَ مِنًى:
باب: منیٰ کے دنوں میں خطبہ سنانا۔
حدیث نمبر: 1742
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى:" أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ , قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَقَالَ: فَإِنَّ هَذَا يَوْمٌ حَرَامٌ، أَفَتَدْرُونَ أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: بَلَدٌ حَرَامٌ، أَفَتَدْرُونَ أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟ , قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: شَهْرٌ حَرَامٌ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا" , وَقَالَ هِشَامُ بْنُ الْغَازِ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ بَيْنَ الْجَمَرَاتِ فِي الْحَجَّةِ الَّتِي حَجَّ بِهَذَا، وَقَالَ: هَذَا يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ فَطَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ وَوَدَّعَ النَّاسَ، فَقَالُوا: هَذِهِ حَجَّةُ الْوَدَاعِ.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، کہا ہم کو عاصم بن محمد بن زید نے خبر دی، انہیں ان کے باپ نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں فرمایا کہ تم کو معلوم ہے! آج کون سا دن ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حرمت کا دن ہے اور یہ بھی تم کو معلوم ہے کہ یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حرمت کا شہر ہے اور تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ کون سا مہینہ ہے، لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حرمت کا مہینہ ہے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا خون! تمہارا مال اور عزت ایک دوسرے پر (ناحق) اس طرح حرام کر دی ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے۔ ہشام بن غاز نے کہا کہ مجھے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں دسویں تاریخ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ دیکھو! یہ ( «يوم النحر») حج اکبر کا دن ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے کہ اے اللہ! گواہ رہنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر چونکہ لوگوں کو رخصت کیا تھا۔ (آپ سمجھ گئے کہ وفات کا زمانہ آن پہنچا) جب سے لوگ اس حج کو حجۃ الوداع کہنے لگے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1742  
1742. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے منیٰ کے میدان میں فرمایا: کیا تم جانتے ہویہ دن کون ساہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ باخبر ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ دن حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ شہر کون ساہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ شہر بھی حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ مہینہ کون ساہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ مہینہ بھی عزت والا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر تمھارے خون، تمھارے مال اور تمھاری عزتیں حرام کی ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے کے دوران اس شہر میں ہے۔ ہشام بن غاز نے کہا: مجھے حضرت نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے خبردی کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع میں قربانی کے دن جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: یہ دن حج اکبرکاہے۔ اس کے بعد نبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1742]
حدیث حاشیہ:
حج اکبر حج کو کہتے ہیں اور حج اصغر عمرہ کو کہتے ہیں اور عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ نویں تاریخ جمعہ کو آجائے تو وہ حج اکبر ہے، اس کی سند صحیح حدیث سے کچھ نہیں، البتہ چند ضعیف حدیثیں اس حج کی زیادہ فضیلت میں وارد ہیں جس میں نویں تاریخ جمعہ کو آن پڑے۔
بعضوں نے کہا یوم الحج الأصغر نویں تاریخ کو اور یوم الحج الأکبر دسویں تاریخ کو کہتے ہیں کہ ان ہی دنوں میں آپ ﷺ پر سورۃ:
﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ نازل ہوئی اور آپ ﷺ سمجھ گئے کہ اب دنیا سے روانگی قریب ہے، اب ایسے اجتماع کا موقع نہ مل سکے گا اور بعد میں ایسا ہی ہوا فیه دلیل لمن یقول أن یوم الحج الأکبر هو یوم النحر یعنی اس حدیث میں اس شخص کی دلیل موجود ہے جو کہتا ہے کہ حج اکبر کے دن سے مراد دسویں تاریخ ہے بس عوام میں جو مشہور ہے کہ اگر جمعہ کے دن حج واقع ہو تو اسے حج اکبر کہا جاتا ہے، یہ خیال قوی نہیں أنه نبه صلی اللہ علیه وسلم في الخطبة المذکورة علی تعظیم یوم النحر و علی تعظیم شهر ذي الحجة و علی تعظیم البلد الحرام۔
یعنی آنحضرت ﷺ اس خطبہ میں یوم النحر اور ماہ ذی الحجہ اور مکۃ المکرمہ کی عظمتوں پر تنبیہ فرمائی کہ امت ان اشیاء مقدسہ کو یاد رکھے اور جو نصائح و وصایا آپ ﷺ دئیے جارہے ہیں امت ان کو تاابد فراموش نہ کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1742   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1742  
1742. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے منیٰ کے میدان میں فرمایا: کیا تم جانتے ہویہ دن کون ساہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ باخبر ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ دن حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ شہر کون ساہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ شہر بھی حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ مہینہ کون ساہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ مہینہ بھی عزت والا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر تمھارے خون، تمھارے مال اور تمھاری عزتیں حرام کی ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے کے دوران اس شہر میں ہے۔ ہشام بن غاز نے کہا: مجھے حضرت نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے خبردی کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع میں قربانی کے دن جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: یہ دن حج اکبرکاہے۔ اس کے بعد نبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1742]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا ان احادیث کے بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ ایام منیٰ میں خطبہ مشروع ہے۔
(2)
ان احادیث میں اگرچہ دس ذوالحجہ کے خطبے کا ذکر ہے، تاہم دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام تشریق میں جب بھی ضرورت محسوس ہوئی آپ ﷺ نے خطبہ دیا جیسا کہ بعض روایات میں أوسط أيام التشريق کے الفاظ ہیں:
اس سے گیارہ یا بارہ ذوالحجہ مراد ہے۔
اس خطبے میں یوم النحر، ماہ ذی الحجہ اور مکہ مکرمہ کی عظمتوں کا ذکر ہے۔
امت کو اس پر تنبیہ فرمائی تاکہ وہ انہیں فراموش نہ کر دے، پھر اس میں لوگوں کے حج سے متعلق سوال و جواب بھی ہوئے ہیں۔
صحابہ کرام ؓ نے ان تعلیمات کو خطبے کا نام دیا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے اسی دن یہ فرمایا تھا:
مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔
(3)
حضرت ہرماس بن زیاد، حضرت ابو امامہ، حضرت معاذ اور حضرت رافع بن عمرو ؓ سے بھی روایات ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ کے دن دس ذوالحجہ کو خطبہ دیا تھا۔
اس عظیم الشان خطبے کو اساس الاسلام قرار دیا جاتا ہے اور یہ کافی طویل ہے جسے مختلف صحابۂ کرام ؓ نے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے۔
امام بخاری ؓ کا مقصد خطبے کی تفاصیل سے آگاہ کرنا نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ قربانی کے دن بھی خطبہ دینا مسنون ہے۔
واللہ أعلم۔
(4)
حضرت ابو نضرہ کی روایت میں ایام تشریق کے درمیان والے دن کا خطبہ ان الفاظ میں مروی ہے، آپ نے فرمایا:
اے لوگو! خبردار! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔
خبردار! کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر ہی کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی سرخ کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو سرخ پر کوئی برتری حاصل ہے۔
اگر ہے تو صرف تقوے کی بنا پر۔
کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ صحابۂ کرام ؓ نے کہا:
رسول اللہ ﷺ نے پہنچا دیا ہے۔
(مسندأحمد: 411/5) (5)
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ دوران حج میں تین خطبے مشروع ہیں:
٭ عرفہ کے دن 9 ذوالحجہ۔
٭ نحر کے دن 10 ذوالحجہ۔
٭ ایام تشریق کے وسط میں 12 ذوالحجہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1742