سنن ابي داود
كِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ -- کتاب: فتنوں اور جنگوں کا بیان
1. باب ذِكْرِ الْفِتَنِ وَدَلاَئِلِهَا
باب: فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 4243
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فَرُّوخَ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، أَخْبَرَنِي ابْنٌ لِقَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ" وَاللَّهِ مَا أَدْرِي أَنَسِيَ أَصْحَابِي أَمْ تَنَاسَوْا وَاللَّهِ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَائِدِ فِتْنَةٍ إِلَى أَنْ تَنْقَضِيَ الدُّنْيَا يَبْلُغُ مَنْ مَعَهُ ثَلَاثَ مِائَةٍ فَصَاعِدًا إِلَّا قَدْ سَمَّاهُ لَنَا بِاسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيهِ وَاسْمِ قَبِيلَتِهِ".
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ میرے اصحاب بھول گئے ہیں؟ یا ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ بھول گئے ہیں، قسم اللہ کی ایسا نہیں ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک ہونے والے کسی ایسے فتنہ کے سردار کا ذکر چھوڑ دیا ہو جس کے ساتھ تین سویا اس سے زیادہ افراد ہوں، اور اس کا اور اس کے باپ اور اس کے قبیلہ کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا نہ دیا ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3379) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4243  
´فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ میرے اصحاب بھول گئے ہیں؟ یا ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ بھول گئے ہیں، قسم اللہ کی ایسا نہیں ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک ہونے والے کسی ایسے فتنہ کے سردار کا ذکر چھوڑ دیا ہو جس کے ساتھ تین سویا اس سے زیادہ افراد ہوں، اور اس کا اور اس کے باپ اور اس کے قبیلہ کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا نہ دیا ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4243]
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے اہلِ بدعت نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عالم الغیب تھے۔
انکا یہ دعویٰ انکی جہالت کی دلیل ہے۔
علم الغیب سراسر اللہ عزوجل کی خاس صفت ہے۔
رسول اللہﷺ جو کچھ بھی غیب کی خبریں دیتے تھے وہ سب اللہ عزوجل کی طرف سے وحی ہوتا تھا۔
قرآن مجید میں ہے: (وہ غیب کا جاننے والا ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے۔
۔
۔
(الجن26،27) ملا علی قاری ؒ شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں انبیاء کرام کچھ غیب نہیں جانتے سوائے اس کے جو اللہ تعالی انہیں خبر دے۔
اور علمائے احناف نے صراحت کی ہے کہ جو شخص نبی ﷺ کے عالم الغیب ہو نے کا عقیدہ رکھےوہ کافر ہے۔
کیونکہ یہ بات اللہ عزوجل کے فرمان کے خلاف ہے۔
کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں اور زمیں والوں میں سے سوائے اللہ کے کو ئی غیب نہیں جانتا۔
(النمل: 65) اور بعض نے صراحت کی ہے کہ باطل کو جھٹلانا دین کے ضروری امور میں سے ہے۔
چنانچہ علم الغیب صرف اور صرف اللہ عزوجل کے لیئے خاص ہے اور بہت سی نصوص اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں مثلاََ اور اللہ ہی کے پاس تمام مخفی اشیاء کے خزانے، ان کو کو ئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے، اور وہی جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور دریاؤں میں ہے۔
۔
۔
۔
۔
۔
(الأنعام 59)۔
بلا شبہ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم وہی بارش برساتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے کو ئی نہیں جانتا کہ کل کیا کچھ کرے گا نہ کسی جان کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا بلا شبہ اللہ ہی کامل علم اور صحیح خبروں والا ہے۔
(لقمان 34)۔
الغرض اللہ کے سوا کسی اور کے لیئے جائز نہیں کسی طرح جائز نہیں کہ اسے علمِغیب سے موصوف مانا جائے۔
اور یہی وجہ ہے جب نبیﷺ کے سامنے وہ ابیات پڑھے گئے جن میں یہ مضمون تھا کہ ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی بات جانتا ہے۔
۔
۔
۔
۔
تو آپؐ نے فورََا اُن کو روک دیا اور فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور پہلے والی بات کہو۔
المختصر کسی صورت جائز نہیں کہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو عالم الغیب کہا جائے۔
غیب کی جتنی بھی خبریں آپ ؐ نے دیں ہیں وہ سب اللہ تعالی کے اطلاع کرنے سے دی ہیں۔
غیب پر مطلع ہونےہونے کا وحی اور الہام کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں۔
علاوہ ازیں بحر الرائق میں ہے کہ اگر کو ئی عقد نکاح میں یوں کہےکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی گواہی سے یہ نکاح ہوا، تو نکاح نہیں ہو گا۔
بلکہ ایسا آدمی کافر ہو گا کیونکہ اس نے نبیﷺ کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4243