صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
133. بَابُ هَلْ يَبِيتُ أَصْحَابُ السِّقَايَةِ أَوْ غَيْرُهُمْ بِمَكَّةَ لَيَالِيَ مِنًى:
باب: منی کی راتوں میں جو لوگ مکہ میں پانی پلاتے ہیں یا اور کچھ کام کرتے ہیں وہ مکہ میں رہ سکتے ہیں۔
حدیث نمبر: 1745
ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ الْعَبَّاسَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَبِيتَ بمكة لَيَالِيَ مِنًى مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ، فَأَذِنَ لَهُ" تَابَعَهُ أَبُو أُسَامَةَ وَعُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ وَأَبُو ضَمْرَةَ.
اور ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کی راتوں میں (حاجیوں) کو پانی پلانے کے لیے مکہ میں رہنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ اس روایت کی متابعت محمد بن عبداللہ کے ساتھ ابواسامہ عقبہ بن خالد اور ابوضمرہ نے کی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3065  
´منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کی اجازت مانگی، کیونکہ زمزم کے پلانے کا کام ان کے سپرد تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3065]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مکہ مکرمہ میں قریش کی مختلف شاخوں کو مختلف مناصب حاصل تھے۔
رسول اللہﷺ کے اجداد میں سے قصی بن کلاب کو جو مناصب حاصل تھےوہ انھوں نے اپنے بیٹوں میں تقسیم کیےپھر وہ منصب ان کی اولاد میں تقسیم ہوئے تو سقایت (حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب)
بنو عبد مناف کو اور حجابت (کعبہ کی خدمت اور کلید برادری)
بنو عبد الدار کو ملی۔
رسول اللہ ﷺ کے حج کے موقع پر سقایت کا یہ منصب حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو حاصل تھا۔ (الرحيق المختومص: 53)

(2)
منی کے ایام سے مراد ذوالحجہ کی گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔
جن میں حاجی منی میں رہتے ہیں۔
ان ایام کی راتیں بھی منی میں گزارنی چاہییںا لبتہ حاجیوں کی خدمت کے سلسلے میں خدام مکہ مکرمہ میں بھی رہ سکتے ہیں۔ (3)
حاجیوں کی خدمت ایک بڑا شرف ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3065   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 635  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ منٰی والی راتیں مکہ میں کاٹیں تاکہ وہ آب زمزم پلا سکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دیدے دی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 635]
635لغوی تشریح: «ليالي منيٰ» منیٰ کی راتوں سے مراد ذوالحجہ کی گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں راتیں ہیں۔ یہ اجازت انہوں نے اس مقصد اور غرض کے لیے طلب کی کہ وہ اور ان کے ساتھی رات کو آب زمزم کھینچ کر حوض بھر لیتے تھے اور فی سبیل اللہ لوگوں کو پلاتے تھے۔
«فاذن له» یہ اجازت اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ معذور نہ ہوں ان کے لیے منیٰ ہی میں یہ راتیں گزارنا واجب ہے اور جنہیں کوئی عذر پیش آ جائے، مثلاً: منیٰ میں خیمے میں آگ بھڑک اٹھے اور طویل رات گزارنا ناممکن و مشکل نظر آئے تو وہاں رات گزارنا ضروری نہیں اور اسی طرح تیسری رات بھی وہاں گزارنا واجب نہیں کیونکہ جو شخص جلدی کر کے دو دن ہی منیٰ میں رہ کر چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورہ البقرہ میں فرمایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 635   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1959  
´منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاجیوں کو پانی پلانے کی وجہ سے منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1959]
1959. اردو حاشیہ: کوئی معقول شرعی عذر ہوتو معنی سےباہر رہ سکتا ہے، مثلاً حجاج کی خدمت، جانوروں کو چرانا یا مریض اور اس کی تیمارداری وغیرہ۔ اس قسم کے اعذار کے علاوہ منی ٰ میں رات گزارنا ضروری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1959   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1745  
1745. حضرت ابن عمر ؓ سے ایک اورروایت ہے کہ حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب نے نبی کریم ﷺ سے اجازت طلب کی کہ پانی پلانے کے انتظامات کرنے کے لیے منیٰ کی راتیں مکہ مکرمہ میں بسر کریں تو آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ ابو اسامہ، عقبہ بن خالد اور ابوضمرہ نے عبداللہ بن نمیر سے روایت کرنے میں محمد بن عبداللہ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1745]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جس کو کوئی عذر نہ ہو اس کا منیٰ کی راتوں میں منی میں رہنا واجب ہے، شافعیہ اور حنابلہ اور اہل حدیث کا یہی قول ہے اور بعض کے نزدیک یہ واجب نہیں سنت ہے۔
(وحیدی)
و في الحدیث دلیل علی وجوب المبیت بمنی و أنه من مناسك الحج لأن التعبیر بالرخصة یقتضي أن مقابلهاواجب وأن الإذن وقع للعلة المذکورة و إذا لم توجد أو ما في معناها لم یحصل الإذن و بالوجوب قال الجمهور۔
(فتح)
یعنی منی میں رات گزارنا واجب اور مناسک ِحج سے ہے، جمہور کا یہی قول ہے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو علت مذکورہ کی وجہ سے مکہ میں رات گزارنے کی اجازت ہی دلیل ہے کہ جب ایسی کوئی علت نہ ہو تو منیٰ میں رات گزارنا واجب ہے اور جمہور کا یہی قول ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1745   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1745  
1745. حضرت ابن عمر ؓ سے ایک اورروایت ہے کہ حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب نے نبی کریم ﷺ سے اجازت طلب کی کہ پانی پلانے کے انتظامات کرنے کے لیے منیٰ کی راتیں مکہ مکرمہ میں بسر کریں تو آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ ابو اسامہ، عقبہ بن خالد اور ابوضمرہ نے عبداللہ بن نمیر سے روایت کرنے میں محمد بن عبداللہ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1745]
حدیث حاشیہ:
(1)
طواف افاضہ کے بعد ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنی چاہئیں اور ان دنوں زوال آفتاب کے بعد تین جمرات کو رمی کی جائے اور اللہ کا ذکر کیا جائے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ طواف افاضہ کرنے کے بعد منیٰ کی طرف لوٹے اور ایام تشریق کی راتیں وہیں بسر کیں۔
اس دوران میں جب سورج ڈھل جاتا تو آپ جمرات کو کنکریاں مارتے۔
جمہور علماء کے نزدیک ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا ضروری ہیں کیونکہ یہ عمل مناسک حج میں سے ہے اور مناسک حج پر عمل کرنا واجب ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دنوں فرمایا تھا:
مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔
(2)
امام بخاری ؒ نے صرف ضرورت مند حضرات کے لیے مکہ میں رات گزارنے کی اجازت کو ثابت کیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عذر نہ ہو تو منیٰ میں ایام تشریق کی راتیں گزارنا ضروری ہیں، اجازت طلب کرنے اور رخصت دینے کا مطلب بھی یہی ہے۔
یہ اجازت کسی ضرورت کے پیش نظر ہے جیسا کہ حضرت عباس ؓ نے حاجیوں کو پانی پلانے کا بندوبست کرنا تھا، اس لیے انہوں نے اجازت طلب کی اور رسول اللہ ﷺ نے رخصت دے دی، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اونٹوں کے چرواہوں کو منیٰ سے باہر رات گزارنے کی اجازت دی۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1975)
یہ ضرورت عام ہے، خواہ پانی پلانے کا بندوبست کرنا ہو یا بیماری وغیرہ لاحق ہو۔
اگر کوئی دو دن قیام کے بعد واپس لوٹ آئے تو اس کی بھی اجازت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاذْكُرُوا اللَّـهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ﴾ اور ان گنتی کے دنوں میں اللہ کو یاد کرو پھر جس نے دو دنوں (منیٰ سے مکے کی طرف واپسی)
میں جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
(البقرة: 203: 2) (3)
امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں تین روایات پیش کی ہیں۔
پہلی روایت کا متن علامہ اسماعیلی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو پانی پلانے کا بندوبست کرنے کی وجہ سے ایام تشریق کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت دی۔
اسی طرح دوسری روایت کے متن کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔
(مسندأحمد: 19/2)
ابو اسامہ کی متابعت کو امام مسلم نے، عقبہ بن خالد کى متابعت کو عثمان بن ابی شیبہ نے اپنی مسند میں اور ابو ضمرہ انس بن عیاض کی متابعت کو خود امام بخاری ؒ نے باب سقایۃ الحاج، حدیث: 1634 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 730/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1745