صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
135. بَابُ رَمْيِ الْجِمَارِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي:
باب: رمی جمار وادی کے نشیب سے کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1747
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ:" رَمَى عَبْدُ اللَّهِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنَّ نَاسًا يَرْمُونَهَا مِنْ فَوْقِهَا، فَقَالَ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ، هَذَا مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ بِهَذَا.
محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم نے اور ان سے عبدالرحمٰن بن زید نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وادی کے نشیب (بطن وادی) میں کھڑے ہو کر کنکری ماری تو میں نے کہا، اے ابوعبدالرحمٰن! کچھ لوگ تو وادی کے بالائی علاقہ سے کنکریاں مارتے ہیں، اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہی (بطن وادی) ان کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (رمی کرتے وقت) جن پر سورۃ البقرہ نازل ہوئی تھی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ عبداللہ بن ولید نے بیان کیا کہ ان سے سفیان ثوری نے اور ان سے اعمش نے یہی حدیث بیان کی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3030  
´جمرہ عقبہ پر کہاں سے کنکریاں ماری جائیں؟`
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے نچلے حصے میں گئے، کعبہ کی طرف رخ کیا، اور جمرہ عقبہ کو اپنے دائیں ابرو پر کیا، پھر سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے جاتے تھے پھر کہا: قسم اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، یہیں سے اس ذات نے کنکری ماری ہے جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3030]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ابرو کے مقابل رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بالکل سامنے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تھوڑا سا ہٹ کر کھڑے ہوئے۔

(2)
  رمی کرتے وقت کنکریاں ایک ایک مارنی چاہییں۔

(3)
ہر کنکری مارتے وقت الله اكبر کہنا چاہیے۔

(4)
اس حدیث میں ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کیا جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کو بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف رکھا۔ (صحيح البخاري، الحج، باب من رمي جمرة العقبة فجعل البيت عن يساره، حديث: 1749)
حافظ ابن حجر ؒ نے صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی ہےلیکن یہ بھی فرمایا ہے:
اس بات پر اجماع ہے کہ جہاں بھی کھڑے ہوکر رمی کرے جائز ہےخواہ اس کی طرف منہ کرے یا اسے دائیں بائیں رکھے۔
اس کی اوپر کی سمت سے یا نیچے کی سمت سے یا درمیان سے (فتح الباري3/ 734)

(5)
سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس میں حج کے بہت سے مسائل مذکور ہیں، مطلب یہ ہے کہ قرآن کے احکام کا مطلب رسول اللہ ﷺ بہتر طور پر سمجھتے تھے اس لیے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے عمل کیا ہےہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3030   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 627  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کو اپنی بائیں جانب اور منٰی کو اپنی دائیں جانب رکھا اور جمرہ کو سات سنگریزے مارے اور فرمایا کہ یہ ان (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جن پر سورۃ «البقره» کا نزول ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 627]
627 لغوی تشریح:
«رمى الجمرة» اس جمرہ سے جمرۃ العقبہ مراد ہے۔
«انزلت عليه سورة البقرة» سورہ بقرہ کا بالخصوص ذکر اس لیے کیا کہ حج کے اکثر احکام اس میں بیان ہوئے ہیں۔ گویا اس سے اس پر متنبہ اور خبردار کرنا مقصود ہے کہ حج کے اعمال توفیقی ہیں۔ ان میں رد و بدل اور ترمیم و تنسیخ کی کوئی گنجائش نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 627   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1974  
´رمی جمرات کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ جمرہ کبری (جمرہ عقبہ) کے پاس آئے تو بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا اور جمرے کو سات کنکریاں ماریں، اور کہا: اسی طرح اس ذات نے بھی کنکریاں ماری تھیں جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1974]
1974. اردو حاشیہ: اور یہ وہی منظر ہے جس کا ذکر دیگر احادیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے وادی کے دامن میں سے کنکریاں ماریں(صحیح البخاری الحج حدیث:1750]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1974   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1747  
1747. حضرت عبدالرحمان بن یزید سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں تو میں نے کہا: ابو عبدالرحمان!کچھ لوگ تو اوپر ہی سے کھڑے ہوکررمی کرتے ہیں، توانھوں نے فرمایا: قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں!یہ اس شخص کے رمی کرنے کامقام ہے جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔ ﷺ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1747]
حدیث حاشیہ:
(1)
جمرۂ عقبہ کو وادی کے نشیب میں کھڑے ہو کر رمی کی جاتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1750)
اور دوسرے جمرات کو اوپر کی جانب سے رمی کی جاتی ہے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمرے کو اوپر کی جانب سے کنکریاں مارتے تھے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان جمرۂ عقبہ کے متعلق قائم کیا ہے، چنانچہ حضرت عمر ؓ کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ وہ جمرۂ عقبہ کو وادی کے نشیب سے کنکریاں مارتے تھے۔
(فتح الباري: 732/3) (3)
سائل نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے جمرۂ عقبہ کو رمی کرنے کے متعلق سوال کیا تھا۔
(4)
واضح رہے کہ رمی کرتے وقت مکہ مکرمہ بائیں جانب اور عرفہ دائیں جانب ہو، اس طرح جمرۂ عقبہ کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کرنے کے لیے اسی مقام پر انصار سے بیعت لی تھی۔
جمرۂ عقبہ کو جمرۂ کبریٰ اور بڑا شیطان بھی کہتے ہیں۔
(5)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے آخر میں بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن ولید نے سفیان ثوری سے، انہوں نے حضرت اعمش سے یہ حدیث نقل کی ہے۔
یہ تعلیق جامع سفیان ثوری میں متصل سند سے بیان ہوئی ہے۔
(فتح الباري: 732/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1747