سنن ابي داود
كِتَاب الْمَلَاحِمِ -- کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں
16. باب فِي خَبَرِ ابْنِ صَائِدٍ
باب: ابن صیاد کا بیان۔
حدیث نمبر: 4329
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَر، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَرَّ بِابْنِ صَائِدٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ:" أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَأْتِيكَ؟ قَالَ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُلِطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي قَدْ خَبَّأْتُ لَكَ خَبِيئَةً وَخَبَّأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ يَكُنْ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ يَعْنِي الدَّجَّالَ وَإِلَّا يَكُنْ هُوَ فَلَا خَيْرَ فِي قَتْلِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، وہ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ ایک کمسن لڑکا تھا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا جب تک آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پشت پر مار نہ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو ابن صیاد نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، اور بولا: ہاں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو آپ نے اس سے فرمایا: میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: تیرے پاس کیا چیز آتی ہے؟ وہ بولا: سچی اور جھوٹی باتیں آتی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو معاملہ تیرے اوپر مشتبہ ہو گیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تیرے لیے ایک بات چھپائی ہے اور آپ نے اپنے دل میں «يوم تأتي السماء بدخان مبين» (سورۃ الدخان: ۱۰) والی آیت چھپا لی، تو ابن صیاد نے کہا: وہ چھپی ہوئی چیز «دُخ» ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہٹ جا، تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا، اس پر عمر رضی اللہ عنہ بولے: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے، میں اس کی گردن مار دوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ (دجال) ہے تو تم اس پر قادر نہ ہو سکو گے، اور اگر وہ نہیں ہے تو پھر اس کے قتل میں کوئی بھلائی نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز 79 (1354)، الجہاد 178 (3055)، الأدب 97 (6618)، صحیح مسلم/الفتن 19 (2930)، سنن الترمذی/الفتن 63 (2249)، (تحفة الأشراف: 6932)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/148، 149) وأعادہ المؤلف فی السنة (4757) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1126  
´جزیہ اور صلح کا بیان`
سیدنا عائذ بن عمرو المذنی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔ (سنن دارقطنی) «بلوغ المرام/حدیث: 1126»
تخریج:
«أخرجه الدار قطني: 3 /252 وسنده ضعيف، وللحديث شواهد عند الطحاوي في معاني الآثار:2 /150 وغيره، وعلقه البخاري، الجنائز، قبل حديث:1354.»
تشریح:
1. اس حدیث میں خبر و اطلاع بھی ہے اور پیش گوئی بھی کہ اسلام ہمیشہ غالب بن کر رہنے کے لیے آیا ہے‘ مغلوب بن کر رہنے کے لیے نہیں‘ لہٰذا اہل اسلام کو چاہیے کہ نظریاتی اور عملی طور پر اسے غالب رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
اسلام کی صحیح تبلیغ و اشاعت کریں۔
اور اس کے مطابق پہلے خود اپنی عملی زندگی ڈھالیں تاکہ ان کے عمل و کردار اور اخلاق و اطوار سے متاثر ہو کر غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوں۔
2.اس حدیث کو ہدنہ (صلح) کی تمہید اور ابتدا کے طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ باہمی مصالحت میں اگر بفرض محال کوئی شرط بظاہر اسلام کے ماننے والے کے مفاد کے خلاف بھی معلوم ہو تو پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
3. اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔
وہ اسے ہمیشہ سربلند و بالاتر اور اعلیٰ و غالب رکھے گا۔
اس کے ماننے والے اگر اس کے مطابق عمل کریں گے تو سرخرو ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اسلام اور اہل اسلام کی نصرت و مدد فرمائے گا۔
4. اسلام کا دلائل و براہین کے اعتبار سے سب پر غالب رہنا تو ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابو ہبیرہ ان کی کنیت تھی۔
بصرہ میں فروکش ہوگئے تھے۔
نیک ترین صحابہ میں سے تھے۔
بیعت رضوان میں حاضر تھے۔
یزید بن معاویہ کے عہد میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1126   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2249  
´ابن صائد (ابن صیاد) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہا تھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2249]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔

2؎:
بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبردی گئی ہے،
لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے،
معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے،
ابن صیاد تو ان دجاجلہ،
کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ ﷺ نے خبردی تھی،
اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہوچکا ہے،
رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتی کہ آپ ﷺ کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپﷺ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2249   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4329  
´ابن صیاد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، وہ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ ایک کمسن لڑکا تھا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا جب تک آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پشت پر مار نہ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو ابن صیاد نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، اور بولا: ہاں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4329]
فوائد ومسائل:
علامہ ابنِ اثیر النہایہ میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک یہودی تھا جو ان کے ساتھ ملا جلا رہتا تھا۔
اس کا نام صَا فُ کہا گیا ہے۔
اس کے پاس کہانت اور جادو کا علم تھا اور وہ اپنے وقت میں اللہ کے نیک بندوں کے لیئے ایک امتحان تھا تا کہ جو ہلاک ہو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے دلیل ک ساتھ زندہ رہے۔
اکثر کہتے ہیں کہ یہ مدینہ میں مرا اور یہ بھی کہا گیا کہ واقعہ حرا کے مو قعے پر اسے گم پایا گیا اور پھر ملا نہیں۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4329