صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
138. بَابُ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ:
باب: اس بیان میں کہ (حاجی کو) کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہئے۔
قَالَهُ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اس کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر: 1750
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ , يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ السُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا الْبَقَرَةُ، وَالسُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا آلُ عِمْرَانَ، وَالسُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا النِّسَاءُ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" حِينَ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَاسْتَبْطَنَ الْوَادِيَ، حَتَّى إِذَا حَاذَى بِالشَّجَرَةِ اعْتَرَضَهَا فَرَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ قَالَ: مِنْ هَا هُنَا، وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ قَامَ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد مصری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے حجاج سے سنا، وہ منبر پر سورتوں کا یوں نام لے رہا تھا وہ سورۃ جس میں بقرہ (گائے) کا ذکر آیا ہے، وہ سورۃ جس میں آل عمران کا ذکر آیا ہے، وہ سورۃ جس میں نساء (عورتوں) کا ذکر آیا ہے، اعمش نے کہا میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن یزید نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو وہ ان کے ساتھ تھے، اس وقت وہ وادی کے نشیب میں اتر گئے اور جب درخت کے (جو اس وقت وہاں پر تھا) برابر نیچے اس کے سامنے ہو کر سات کنکریوں سے رمی کی ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے جاتے تھے۔ پھر فرمایا قسم ہے اس کی کہ جس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں یہیں وہ ذات بھی کھڑی ہوئی تھی جس پر سورۃ البقرہ نازل ہوئی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3030  
´جمرہ عقبہ پر کہاں سے کنکریاں ماری جائیں؟`
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے نچلے حصے میں گئے، کعبہ کی طرف رخ کیا، اور جمرہ عقبہ کو اپنے دائیں ابرو پر کیا، پھر سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے جاتے تھے پھر کہا: قسم اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، یہیں سے اس ذات نے کنکری ماری ہے جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3030]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ابرو کے مقابل رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بالکل سامنے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تھوڑا سا ہٹ کر کھڑے ہوئے۔

(2)
  رمی کرتے وقت کنکریاں ایک ایک مارنی چاہییں۔

(3)
ہر کنکری مارتے وقت الله اكبر کہنا چاہیے۔

(4)
اس حدیث میں ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کیا جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کو بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف رکھا۔ (صحيح البخاري، الحج، باب من رمي جمرة العقبة فجعل البيت عن يساره، حديث: 1749)
حافظ ابن حجر ؒ نے صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی ہےلیکن یہ بھی فرمایا ہے:
اس بات پر اجماع ہے کہ جہاں بھی کھڑے ہوکر رمی کرے جائز ہےخواہ اس کی طرف منہ کرے یا اسے دائیں بائیں رکھے۔
اس کی اوپر کی سمت سے یا نیچے کی سمت سے یا درمیان سے (فتح الباري3/ 734)

(5)
سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس میں حج کے بہت سے مسائل مذکور ہیں، مطلب یہ ہے کہ قرآن کے احکام کا مطلب رسول اللہ ﷺ بہتر طور پر سمجھتے تھے اس لیے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے عمل کیا ہےہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3030   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 627  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کو اپنی بائیں جانب اور منٰی کو اپنی دائیں جانب رکھا اور جمرہ کو سات سنگریزے مارے اور فرمایا کہ یہ ان (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جن پر سورۃ «البقره» کا نزول ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 627]
627 لغوی تشریح:
«رمى الجمرة» اس جمرہ سے جمرۃ العقبہ مراد ہے۔
«انزلت عليه سورة البقرة» سورہ بقرہ کا بالخصوص ذکر اس لیے کیا کہ حج کے اکثر احکام اس میں بیان ہوئے ہیں۔ گویا اس سے اس پر متنبہ اور خبردار کرنا مقصود ہے کہ حج کے اعمال توفیقی ہیں۔ ان میں رد و بدل اور ترمیم و تنسیخ کی کوئی گنجائش نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 627   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1974  
´رمی جمرات کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ جمرہ کبری (جمرہ عقبہ) کے پاس آئے تو بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا اور جمرے کو سات کنکریاں ماریں، اور کہا: اسی طرح اس ذات نے بھی کنکریاں ماری تھیں جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1974]
1974. اردو حاشیہ: اور یہ وہی منظر ہے جس کا ذکر دیگر احادیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے وادی کے دامن میں سے کنکریاں ماریں(صحیح البخاری الحج حدیث:1750]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1974   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1750  
1750. حضرت اعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج بن یوسف کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا: وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے، وہ سورت جس میں آل عمران کا ذکر ہے اور وہ سورت جس میں نساء کا ذکر ہے۔ اعمش نے کہا: جب میں نے اس بات کاابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا: مجھے عبدالرحمان بن یزید نے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ہمراہ تھے۔ جب انھوں نے جمرہ عقبہ کو رمی کی تو وادی کے نشیب میں اترے حتیٰ کہ درخت کے بالمقابل ہوئے۔ اس کے سامنے کھڑے ہوکر سات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے۔ پھرکہا: اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے!اس جگہ سے اس ذات گرامی نے کنکریاں ماری تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1750]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہواکہ کنکری جداجدا مارنی چاہئے اور ہر ایک کے مارتے وقت اللہ أکبر کہنا چاہئے۔
روایت میں حجاج بن یوسف کا ذکر ہے کہ وہ سورتوں کے مجوزہ ناموں کا استعمال چھوڑ کر اضافی ناموں سے ان کا ذکر کرتا تھا جیسا کہ روایت مذکور ہے۔
اس پر حضرت ابراہیم نخعی نے حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس روایت کا ذکر کیا کہ وہ سورتوں کے مجوزہ نام ہی لیتے تھے اور یہی ہونا چاہئے اس بارے میں حجاج کا خیال درست نہ تھا، امت اسلامیہ میں یہ شخص سفاک بے رحم ظالم کے نام سے مشہور ہے کہ اس نے زندگی میں خدا جانے کتنے بے گناہوں کا خون ناحق زمین کے گردن پر بہایا ہے، باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے قال ابن المنیر خص عبداللہ سورة البقرة بالذکر لأنها التي ذکراللہ فیها الرمي فأشار إلی أن فعله صلی اللہ علیه وسلم مبین لمراد کتاب اللہ تعالیٰ الخ۔
(فتح الباري)
یعنی ابن منیر نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے خصوصیت کے ساتھ سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس میں اللہ نے رمی کا ذکر فرمایا ہے پس آپ نے اشارہ کیا کہ نبی ﷺ نے اپنے عمل سے کتاب اللہ کی مراد کی تفسیر پیش کردی گویا یہ بتلایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آنحضرت ﷺ پر احکام مناسک کا نزول ہوا۔
اس میں یہ تنبیہ ہے کہ احکام حج توقیفی ہیں جس طرح شارع ؑ نے ان کو بتلایا، اسی طرح ان کی ادائیگی لازم ہے کمی بیشی کی کسی کو مجال نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1750   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1750  
1750. حضرت اعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج بن یوسف کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا: وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے، وہ سورت جس میں آل عمران کا ذکر ہے اور وہ سورت جس میں نساء کا ذکر ہے۔ اعمش نے کہا: جب میں نے اس بات کاابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا: مجھے عبدالرحمان بن یزید نے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ہمراہ تھے۔ جب انھوں نے جمرہ عقبہ کو رمی کی تو وادی کے نشیب میں اترے حتیٰ کہ درخت کے بالمقابل ہوئے۔ اس کے سامنے کھڑے ہوکر سات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے۔ پھرکہا: اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے!اس جگہ سے اس ذات گرامی نے کنکریاں ماری تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1750]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رمی کرتے وقت ہر کنکری پر الله أكبر کہا جائے۔
حضرت علی ؓ رمی کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے:
(اللهم اهدني بالهدی وقني بالتقویٰ، واجعل الآخرة خيرا لي من الأولیٰ)
اس بات پر اجماع ہے کہ اگر رمی کرتے وقت الله أكبر نہ کہا جائے تو رمی ہو جائے گی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جب رمی سے فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
(اللهم اجلعه حجا مبرورا وذنبا مغفورا وسعيا مشكورا) (عمدةالقاري: 377/7) (2)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے خصوصیت کے ساتھ سورۂ بقرہ کا ذکر فرمایا کیونکہ اس میں احکام حج تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور اس میں تنبیہ ہے کہ احکام حج توقیفی ہیں۔
جس طرح رسول اللہ ﷺ نے بتایا اسی طرح ان کی ادائیگی ضروری ہے۔
کسی کو اس میں ترمیم و اضافے کی اجازت نہیں ہے۔
(فتح الباري: 735/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1750