صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
142. بَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ الْجَمْرَتَيْنِ:
باب: دونوں جمروں کے پاس دعا کرنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1753
وَقَالَ مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَمَى الْجَمْرَةَ الَّتِي تَلِي مَسْجِدَ مِنًى يَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحَصَاةٍ، ثُمَّ تَقَدَّمَ أَمَامَهَا فَوَقَفَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ رَافِعًا يَدَيْهِ يَدْعُو، وَكَانَ يُطِيلُ الْوُقُوفَ ثُمَّ يَأْتِي الْجَمْرَةَ الثَّانِيَةَ فَيَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحَصَاةٍ، ثُمَّ يَنْحَدِرُ ذَاتَ الْيَسَارِ مِمَّا يَلِي الْوَادِيَ فَيَقِفُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ رَافِعًا يَدَيْهِ يَدْعُو، ثُمَّ يَأْتِي الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الْعَقَبَةِ فَيَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ عِنْدَ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ وَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا" , قَالَ الزُّهْرِيُّ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ مِثْلَ هَذَا، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ.
اور محمد بن بشار نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی اور انہیں زہری نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس جمرہ کی رمی کرتے جو منی کی مسجد کے نزدیک ہے تو سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر «الله اكبر» کہتے، پھر آگے بڑھتے اور قبلہ رخ کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے تھے، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک کھڑے رہتے تھے پھر جمرہ ثانیہ (وسطی) کے پاس آتے یہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ «الله اكبر» کہتے، پھر بائیں طرف نالے کے قریب اتر جاتے اور وہاں بھی قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے اور یہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ «الله اكبر» کہتے، اس کے بعد واپس ہو جاتے یہاں آپ دعا کے لیے ٹھہرتے نہیں تھے۔ زہری نے کہا کہ میں نے سالم سے سنا وہ بھی اسی طرح اپنے والد (ابن عمر رضی اللہ عنہما) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے اور یہ کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خود بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1753  
1753. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے انھوں نے (بواسطہ سالم بن عبداللہ عن ابن عمر) کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب اس جمرے کو رمی کرتے جو مسجد منیٰ کے قریب ہے تو اسے سات کنکریاں مارتے۔ جب بھی کنکری مارتے تو اللہ أکبر کہتے۔ پھر آگے بڑھ جاتے اور قبلہ روہوکر ٹھہرتے، پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعاکرتے، اس طرح دیر تک وہاں ٹھہرتے۔ پھر دوسرے جمرے کے پاس آتے اور اس کوسات کنکریاں مارتے۔ جب بھی کنکری مارتے تو اللہ أکبر کہتے۔ پھر بائیں جانب وادی کے قریب اترجاتے، وہاں بھی قبلہ رو کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے، اسے بھی سا ت کنکریاں مارتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ أکبر کہتے۔ اس کے بعد واپس ہوجاتے اور اس کے پاس دعا کے لیے نہ ٹھہرتے۔ ابن شہاب زہری نے کہا: میں نے حضرت سالم سے سنا، وہ اپنے باپ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے اسی طرح بیان کرتے تھے، نیز حضرت عبداللہ بن عمر ؓ خود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1753]
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ مَشْرُوعِيَّةُ التَّكْبِيرِ عِنْدِ رَمْيِ كُلِّ حَصَاةٍ وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ مَنْ تَرَكَهُ لَا يَلْزَمهُ شَيْءٌ إِلَّا الثَّوْرِيَّ فَقَالَ يُطْعِمُ وَإِنْ جَبَرَهُ بِدَمٍ أَحَبُّ إِلَيَّ وَعَلَى الرَّمْيِ بِسَبْعٍ وَقَدْ تَقَدَّمَ مَا فِيهِ وَعَلَى اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ بَعْدَ الرَّمْيِ وَالْقِيَامِ طَوِيلًا وَقَدْ وَقَعَ تَفْسِيره فِيمَا رَوَاهُ بن أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ عَطَاءٍ كَانَ بن عُمَرَ يَقُومُ عِنْدَ الْجَمْرَتَيْنِ مِقْدَارَ مَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَفِيهِ التَّبَاعُدُ مِنْ مَوْضِعِ الرَّمْيِ عِنْدَ الْقِيَامِ لِلدُّعَاءِ حَتَّى لَا يُصِيبَ رَمْيَ غَيْرِهِ وَفِيهِ مَشْرُوعِيَّةُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ وَتَرْكِ الدُّعَاءِ وَالْقِيَامِ عَنْدِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ (فتح الباری)
یعنی اس حدیث میں ہر کنکری کو مارتے وقت تکبیر کہنے کی مشروعیت کا ذکر ہے اور اس پر اجماع ہے کہ اگر کسی نے اسے ترک کردیا تو اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا مگر ثوری کہتے ہیں کہ وہ مسکینوں کو کھانا کھلائے گا اور اگر دم دے تو زیادہ بہتر ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سات کنکریوں سے رمی کرنا مشروع ہے اور وہ بھی ثابت ہوا کہ رمی کے بعد قبلہ رخ ہو کر کافی دیر تک کھڑے کھڑے دعا مانگنا بھی مشروع ہے۔
یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جمرتین کے نزدیک اتنی دیر تک قیام فرماتے جتنی دیر میں سورۃ بقرہ ختم کی جاتی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقام رمی سے ذرا دور ہو کر دعا کے لیے قیام کرنا مشروع ہے تاکہ کسی کی کنکری اس کو نہ لگ سکے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس وقت دعاؤں میں ہاتھ اٹھانا بھی مشروع ہے اور یہ بھی کہ جمرہ عقبہ کے پاس نہ تو قیام کرنا ہے نہ دعا کرنا، وہاں سے کنکریاں مارتے ہی واپس ہو جانا چاہئے۔
مزید ہدایات:
گیارہ ذی الحجہ تک یہ تاریخیں ایام تشریق کہلاتی ہیں، طواف افاضہ جو دس کو کیاجاتا ہے اس کے بعد کی تاریخوں میں منیٰ کے میدان میں مستقل پڑاؤ رکھنا چاہئے۔
یہ دن کھانے پینے کے ہیں، ان میں روزہ رکھنا بھی منع ہے۔
ان دنوں میں ہر روز زوال کے بعد ظہر کی نماز سے پہلے تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہوں گی جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں قَالَتْ:
«أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مِنًى، فَمَكَثَ بِهَا لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ يَرْمِي الْجَمْرَةَ، إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ كُلُّ جَمْرَةٍ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، وَيَقِفُ عِنْدَ الْأُولَى، وَالثَّانِيَةِ فَيُطِيلُ الْقِيَامَ، وَيَتَضَرَّعُ، وَيَرْمِي الثَّالِثَةَ وَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا» (رواہ أبوداود)
یعنی نبی کریم ﷺ ظہر کی نماز تک طواف افاضہ سے فارغ ہو گئے پھر آپ ﷺ منی واپس تشریف لے گئے اور ایام تشریق میں آپ ﷺ نے منیٰ میں ہی شب کو قیام فرمایا۔
زوال شمس کے بعد آپ ﷺ روزانہ رمی جمار کرتے ہر جمرہ پر سات سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر نعرہ تکبیر بلند کرتے۔
جمرہ اولی جمرہ ثانیہ کے پاس بہت دیر تک آپ ﷺ قیام فرماتے اور باری تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری فرماتے۔
جمرہ ثالثہ پر کنکری مارتے وقت یہاں قیام نہیں فرماتے تھے۔
پس تیرہ ذی الحجہ کے وقت زوال تک منیٰ میں رہنا ہوگا۔
ان ایام میں تکبیرات بھی پڑھنی ضروری ہیں، کنکریاں بعد نماز ظہر بھی ماری جاسکتی ہیں۔
رمی جمار کیا ہے؟:
کنکریاں مارنا، صفا و مروہ کی سعی کرنا، یہ عمل ذکر اللہ کو قائم رکھنے کے لیے ہیں جیسا کہ ترمذی میں حضرت عائشہ ؓ سے مرفوعاً مروی ہے۔
کنکریاں مارنا شیطان کو رجم کرنا ہے، یہ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت کی پیروی ہے آپ ﷺ جب مناسک حج ادا کرچکے تو جمرہ عقبہ پر آپ کے سامنے شیطان آیا آپ ؑ نے اس پر سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا۔
پھر جمرہ ثانیہ پر وہ آپ ؑ کے سامنے آیاتو آپ نے وہاں بھی سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا، پھر جمرہ ثالثہ پر آپ ؑکے سامنے آیا تو بھی آپ نے سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا۔
یہ اسی واقعہ کی یادگار ہیں۔
کنکریاں مارنے سے مہلک ترین گناہوں میں سے ایک گناہ معاف ہوتا ہے نیز کنکریاں مارنے واے کے لیے قیامت کے روز وہ کنکریاں باعث روشنی ہوگی۔
جو کنکریاں باری تعالیٰ کے دربار میں درجہ قبولیت کو پہنچتی ہیں، وہ وہاں سے اٹھ جاتی ہیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو پہاڑوں کے ڈھیر لگ جاتے (مشکوٰة، مجمع الزاوائد)
اب ہر سہ جمرات کی تفصیل علیحدہ علیحدہ لکھی جاتی ہے۔
جمرہ اولی:
یہ پہلا منارہ ہے جس کو پہلا شیطان کہا جاتا ہے۔
یہ مسجد خیف کی طرف بازار میں ہے۔
گیارہ تاریخ کو اسی سے کنکریاں مارنی شروع کریں، کنکریاں مارتے وقت قبلہ شریف کو بائیں طرف اور منیٰ دائیں ہاتھ کرنا چاہئے۔
اللہ أکبر کہہ کر ایک ایک کنکری پیچھے بتلائے طریقے سے پھینکیں۔
جب ساتوں کنکریاں مار چکیں تو قبلہ کی طرف چند قدم بڑھ جائیں اور قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر تسبیح، تحمید اور تہلیل و تکبیر پکاریں اور خوب دعائیں مانگیں۔
سنت طریقہ یہ ہے کہ اتنی دیر تک یہاں دعا مانگیں اور ذکر اذکار کریں جتنی دیر سورۃ بقرہ کی تلاوت میں لگتی ہے اتنا نہ ہو سکے تو جو کچھ ہو سکے اس کو غنیمت جانیں۔
جمرہ وسطی:
یہ درمیانی منارہ ہے جس طرح جمرہ اولی کو کنکریاں ماری تھیں اسی طرح اس کو بھی ماریں اور چند قدم بائیں طرف ہٹ کر نشیب میں قبلہ رو کھڑے ہو کر مثل سابق کے دعائیں مانگیں اور بقدر تلاوت سورۃ بقرہ کے حمد و ثنائے الٰہی میں مشغول رہیں۔
(بخاری)
جمرہ عقبی:
یہ منارہ بیت اللہ کی جانب ہے اس کوبڑے شیطان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اس کو بھی اسی طرح کنکریاں ماریں۔
ہاں اس کو کنکریاں مار کر یہاں ٹھہرنا نہیں چاہئے اور نہ یہاں ذکر و اذکار اور دعائیں ہونی چاہئیں۔
(بخاری)
یہ تیرہ ذی الحجہ کے زوال تک کا پروگرام ہے یعنی 13 کی زوال تک منی میں رہ کر روزانہ وقت مقررہ پر رمی جمار کرنا چاہئے۔
ہاں ضرورت مندوں مثلاً اونٹ چرانے والوں اور آب زمزم کے خادموں اور ضروری کام کاج کرنے والوں کے لیے اجازت ہے کہ گیارہ تاریخ ہی کو گیارہ کے ساتھ بارہ تاریخ کی بھی اکٹھی چودہ کنکریاں مار کر چلے جائیں، پھر تیرہ کو تیرہ کی کنکریاں مار کر منیٰ سے رخصت ہونا چاہئے، اگر کوئی بارہ ہی کو 13 کی بھی مار کر منیٰ سے رخصت ہو جائے تو درجہ جواز میں ہے مگر بہتر نہیں ہے۔
دوران قیام منیٰ میں نماز باجماعت مسجد خیف میں ادا کرنی چاہئے۔
یہاں نماز جمع نہیں کرسکتے ہاں قصر کرسکتے ہیں۔
جمروں کے پاس والی مسجد کی داخلی اور ان کا طواف کرنا بدعت ہے، منیٰ سے تیرہویں تاریخ کو زوال کے بعد تینوں شیطانوں کو کنکریاں مار کر مکہ شریف کو واپسی ہے، کنکریاں مارتے ہوئے سیدھے وادی محصب کو چلے جائیں یہ مکہ شریف کے قریب ایک گھاٹی ہے جو ایک سنگریزہ زمین ہے حصیب البطح اور بطحاءاور خیف بنی کنانہ بھی اسی کے نام ہیں، یہاں اتر کر نماز ظہر، عصر، مغرب اور عشاءادا کریں اور سو رہیں۔
صبح سویرے مکہ شریف میں14کی فجر کے بعد داخل ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا اگر کوئی اس وادی میں نہ ٹھہرے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے، مگر سنت سے محرومی رہے گی یہاں ٹھہرنا ارکان حج میں سے نہیں ہے لیکن ہماری کوشش ہمیشہ یہ ہونی چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے سنت ترک نہ ہو، جیسا کہ ایک شاعر سنت فرماتے ہیں:
مسلک سنت پہ اسے سالک چلا جا بے دھڑک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1753   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1753  
1753. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے انھوں نے (بواسطہ سالم بن عبداللہ عن ابن عمر) کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب اس جمرے کو رمی کرتے جو مسجد منیٰ کے قریب ہے تو اسے سات کنکریاں مارتے۔ جب بھی کنکری مارتے تو اللہ أکبر کہتے۔ پھر آگے بڑھ جاتے اور قبلہ روہوکر ٹھہرتے، پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعاکرتے، اس طرح دیر تک وہاں ٹھہرتے۔ پھر دوسرے جمرے کے پاس آتے اور اس کوسات کنکریاں مارتے۔ جب بھی کنکری مارتے تو اللہ أکبر کہتے۔ پھر بائیں جانب وادی کے قریب اترجاتے، وہاں بھی قبلہ رو کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے، اسے بھی سا ت کنکریاں مارتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ أکبر کہتے۔ اس کے بعد واپس ہوجاتے اور اس کے پاس دعا کے لیے نہ ٹھہرتے۔ ابن شہاب زہری نے کہا: میں نے حضرت سالم سے سنا، وہ اپنے باپ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے اسی طرح بیان کرتے تھے، نیز حضرت عبداللہ بن عمر ؓ خود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1753]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس ہاتھ اٹھا کر تادیر دعا کرنے کا ذکر ہے۔
امام بخاری ؒ بھی یہی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں، لیکن تیسرے جمرے کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنا ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں ہر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہنے کی مشروعیت کا بیان ہے۔
اور اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی نے اسے ترک کر دیا تو اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا، البتہ امام ثوری کہتے ہیں کہ وہ مساکین کو کھانا کھلائے اور اگر بطور فدیہ دم دے تو زیادہ بہتر ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے رمی کرنے والے کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا کہ وہ رمی کرنے کے لیے پیدل جائے یا سوار ہو کر، البتہ امام ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ پیدل جایا کرتے تھے اور حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ وہ سواری کو بقدر ضرورت ہی استعمال کرتے تھے۔
(فتح الباري: 738/3) (3)
واضح رہے کہ مذکورہ حدیث مرسل نہیں کیونکہ اس کی مکمل سند متن کے آخر میں بیان کر دی گئی ہے۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا متن سند کے کچھ حصے سے پہلے بیان کر دیا گیا ہے۔
(فتح الباري: 737/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1753