صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
150. بَابُ التِّجَارَةِ أَيَّامَ الْمَوْسِمِ وَالْبَيْعِ فِي أَسْوَاقِ الْجَاهِلِيَّةِ:
باب: زمانہ حج میں تجارت کرنا اور جاہلیت کے بازاروں میں خرید و فروخت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1770
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْهَيْثَمِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" كَانَ ذُو الْمَجَازِ وَعُكَاظٌ مَتْجَرَ النَّاسِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ كَأَنَّهُمْ كَرِهُوا ذَلِكَ , حَتَّى نَزَلَتْ: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ سورة البقرة آية 198 فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ".
ہم سے عثمان بن ہیثم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ذوالمجاز اور عکاظ عہد جاہلیت کے بازار تھے جب اسلام آیا تو گویا لوگوں نے (جاہلیت کے ان بازاروں میں) خرید و فروخت کو برا خیال کیا اس پر (سورۃ البقرہ کی) یہ آیت نازل ہوئی تمہارے لیے کوئی حرج نہیں اگر تم اپنے رب کے فضل کی تلاش کرو، یہ حج کے زمانہ کے لیے تھا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1770  
1770. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ذوالمجاز اور عکاز دور جاہلیت میں لوگوں کی منڈیاں تھیں۔ جب اسلام آیا تو لوگوں نے وہاں خریدوفروخت کرنے کو اچھا خیال نہ کیا تاآنکہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ حج کے زمانے میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1770]
حدیث حاشیہ:
جاہلیت کے زمانہ میں چار منڈیاں مشہور تھیں عکاظ، ذو المجاز، مجنہ اور حباشہ، اسلام کے بعد بس حج کے دنوں میں ان منڈیوں میں خرید و فروخت اور تجارت جائز رہی۔
اللہ نے خود قرآن شریف میں اس کا جواز اتارا ہے کہ تجارت کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کو اپنا فضل قرار دیا۔
جیسا کہ آیت مذکورہ سے واضح ہے۔
تجارت کرنا اسلاف کا بہترین شغل تھا۔
جس کے ذریعہ وہ اطراف عالم میں پہنچے، مگر افسوس کہ اب مسلمانوں نے اس سے توجہ ہٹالی جس کا نتیجہ افلاس و ذلت کی شکل میں ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1770   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1770  
1770. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ذوالمجاز اور عکاز دور جاہلیت میں لوگوں کی منڈیاں تھیں۔ جب اسلام آیا تو لوگوں نے وہاں خریدوفروخت کرنے کو اچھا خیال نہ کیا تاآنکہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ حج کے زمانے میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1770]
حدیث حاشیہ:
(1)
جاہلیت کے زمانے میں چار منڈیاں بہت مشہور تھیں:
٭ ذوالمجاز:
میدان عرفہ سے ایک میل کے فاصلے پر بازار لگایا جاتا تھا۔
٭ مجنہ:
مکہ کے نشیب میں مر الظہران کے پاس اس کا اہتمام ہوتا تھا۔
٭ عُکاظ:
نخلہ اور طائف کے درمیان فتق مقام پر یہ منڈی لگتی تھی۔
٭ حباشہ:
مکہ سے یمن کے طرف دیار بارق میں یہ بازار لگتا تھا۔
چونکہ ذوالمجاز اور عکاظ حج کے دنوں میں لگائے جاتے تھے، اس لیے حدیث میں ان کا بیان ہوا ہے۔
لوگ ان دنوں خریدوفروخت ناپسند کرتے تھے کیونکہ یہ دن ذکر الٰہی کے لیے مخصوص ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حدیث میں مذکورہ آیت کے ذریعے سے ان دنوں خریدفروخت اور تجارت کو جائز قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 749/3۔
750)
(2)
حدیث کے آخر میں جس آیت کا ذکر کیا گیا ہے وہ مذکورہ الفاظ سے شاذ قراءت ہے جو ابن عباس ؓ سے منقول ہے، البتہ قراءت متواتر میں (في مواسم الحج)
کے الفاظ نہیں ہیں اور یہی بات راجح ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1770