سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ -- کتاب: سنتوں کا بیان
9. باب فِي الْخُلَفَاءِ
باب: خلفاء کا بیان۔
حدیث نمبر: 4646
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ"، قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا،وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَام لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ، قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ، يَعْنِي بَنِي مَرْوَانَ.
سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خلافت علی منہاج النبوۃ (نبوت کی خلافت) تیس سال رہے گی ۱؎، پھر اللہ تعالیٰ سلطنت یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا دے گا سعید کہتے ہیں: سفینہ نے مجھ سے کہا: اب تم شمار کر لو: ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال، عمر رضی اللہ عنہ دس سال، عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال، اور علی رضی اللہ عنہ اتنے سال۔ سعید کہتے ہیں: میں نے سفینہ رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ لوگ (مروانی) کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں تھے، انہوں نے کہا: بنی زرقاء یعنی بنی مروان کے ۲؎ چوتڑ جھوٹ بولتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الفتن 48 (2226)، (تحفة الأشراف: 4480)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/221) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت: دو سال، تین ماہ، دس دن، عمر رضی اللہ عنہ کی: دس سال، چھ ماہ، آٹھ دن، عثمان رضی اللہ عنہ کی: گیارہ سال، گیارہ ماہ، نو دن، علی رضی اللہ عنہ کی: چار سال، نو ماہ، سات دن، حسن رضی اللہ عنہ کی: سات ماہ، کل مجموعہ: تیس سال ایک ماہ۔
۲؎: زرقاء بنی امیہ کی امّہات میں سے ایک خاتون کا نام ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2226  
´خلافت کا بیان۔`
سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ ہم سے سفینہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی، پھر اس کے بعد ملوکیت آ جائے گی، پھر مجھ سے سفینہ رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت، عمر رضی الله عنہ کی خلافت، عثمان رضی الله عنہ کی خلافت اور علی رضی الله عنہ کی خلافت، شمار کرو ۱؎، راوی حشرج بن نباتہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسے تیس سال پایا، سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے سفینہ رضی الله عنہ سے کہا: بنو امیہ یہ سمجھتے ہیں کہ خلافت ان میں ہے؟ کہا: بنو زرقاء جھوٹ اور غلط کہتے ہیں، بلکہ ان کا شمار تو بدتر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2226]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مسند احمد میں سفینہ رضی اللہ عنہ سے ہر خلیفہ کے دور کی تصریح موجود ہے،
اس تصریح کے مطابق ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت دوسال،
عمر رضی اللہ عنہ کی دس سال،
عثمان رضی اللہ عنہ کی بارہ سال اور علی رضی اللہ عنہ کی چھ سال ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2226   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4646  
´خلفاء کا بیان۔`
سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خلافت علی منہاج النبوۃ (نبوت کی خلافت) تیس سال رہے گی ۱؎، پھر اللہ تعالیٰ سلطنت یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا دے گا سعید کہتے ہیں: سفینہ نے مجھ سے کہا: اب تم شمار کر لو: ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال، عمر رضی اللہ عنہ دس سال، عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال، اور علی رضی اللہ عنہ اتنے سال۔ سعید کہتے ہیں: میں نے سفینہ رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ لوگ (مروانی) کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں تھے، انہوں نے کہا: بنی زرقاء یعنی بنی مروان کے ۲؎ چوتڑ جھوٹ بولتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4646]
فوائد ومسائل:
بنوزرقاء سے مراد بنو مروان ہیں زرقاء ان کے نسب میں آتی ہے جس کی یہ اولاد ہیں۔


پچھلے حصوں نے جھوٹ بولا ایک محاورہ ہے جو اپنے مفاد کے لیے من گھڑت بات پھیلانے والون کے بارے میں بولا جاتا ہے۔


مذکورہ بالا مدت خلفاء اربعہ حضرت ابوبکرٌحضرت عمر حضرت عثمان حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کو محیط ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت دوسال تین مہینے اور دس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دس سال چھ مہینے اور آٹھ دن اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی گیارہ سال گیارہ مہینے اور نو دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چار سال نو مہینے اور سات دن اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تقریباً سات مہینے ہے۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئےخود ہی خلافت سے دست برداری اختیار کرکے خلافت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی اور یوں وہ اختلافات ختم ہوگئے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد قصاص عثمان کے مسئلے پر شروع ہوئے تھے جو بڑھتے بڑھتے باہمی جنگ اور خون یزی تک پہنچ گئے تھے۔
اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ 20 سال تک خلیفہ رہے انہوں نے اندرونی شورش اور بد امنی کو بھی ختم کیااور بیرونی طور پر ان جہادی سرگرمیوں کا بھی پھر سے آغاز کیا جن کا سلسلہ آپس کے اختلافات کی وجہ سے منقطع ہوگیا تھا۔
اس اعتبار سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ دور خلافت بھی اسلامی تاریخ کا ایک عہد زریں ہے۔
حدیث میں جو خلافت نبوت کا دور جو صرف 30 سال بتلایا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اتنے عرصے تک خلافت میں دنیوی اغراض ومقاصد اور شاہانہ شان و شوکت شامل نہیں ہوگی، لیکن اس کے بعد ان چیزوں کی کچھ آمیزش ہو جائے گی۔
یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے خلافت یا اسلامی نظام حکومت ہی کا خاتمہ ہوجائے گا او صرف ملوکیت یا مطلق العنایت ہی باقی رہ جائے گی۔
ایسا الحمد للہ نہیں ہوا، بلکہ خلافت کچھ جزوی خرابیوں کے ساتھ باقی رہی۔
اور یہ تسلسل کم و بیش کے کچھ فرق کے ساتھ صدیوں تک قائم رہا تا آنکہ 1924 میں ترکی کے مصطفی کمال پاشا نے ادارہ خلافت کا خاتمہ کردیا۔
بعض لوگ اس حدیث کی بنیاد پر یہ دعوی کردیتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام صرف 30 سال چلا اور پھر ختم ہوگیا۔
یہ دعوی نہایت سطحی بھی ہے اور حقائق وواقعات کے خلاف بھی۔
اسلام کے سیاسی نظام یعنی ادارہ کلافت نے صدیوں تک دنیا میں حکمرانی کی ہے اور اس کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت کا سکہ منوایا ہے۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:راقم(حافظ صلاح الدین یوسف کی کتابؒ) خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت) اس میں اسلام کے سیاسی نظام یعنی خلافت کے خدوخال بھی واضح کیے گیے ہیں اور مسلمان خلفاء وسلاطین کی بابت غلط پروپیگنڈے کی دبیز تہوں کو بھی صاف کیا گیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4646