صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ -- کتاب: وضو کے بیان میں
33. بَابُ الْمَاءِ الَّذِي يُغْسَلُ بِهِ شَعَرُ الإِنْسَانِ:
باب: جس پانی سے آدمی کے بال دھوئے جائیں اس پانی کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
وَكَانَ عَطَاءٌ لاَ يَرَى بِهِ بَأْسًا أَنْ يُتَّخَذَ مِنْهَا الْخُيُوطُ وَالْحِبَالُ، وَسُؤْرِ الْكِلاَبِ وَمَمَرِّهَا فِي الْمَسْجِدِ. وَقَالَ الزُّهْرِيُّ إِذَا وَلَغَ فِي إِنَاءٍ لَيْسَ لَهُ وَضُوءٌ غَيْرُهُ يَتَوَضَّأُ بِهِ. وَقَالَ سُفْيَانُ هَذَا الْفِقْهُ بِعَيْنِهِ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: {فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا} وَهَذَا مَاءٌ، وَفِي النَّفْسِ مِنْهُ شَيْءٌ، يَتَوَضَّأُ بِهِ وَيَتَيَمَّمُ.
‏‏‏‏ عطاء بن ابی رباح آدمیوں کے بالوں سے رسیاں اور ڈوریاں بنانے میں کچھ حرج نہیں دیکھتے تھے اور کتوں کے جھوٹے اور ان کے مسجد سے گزرنے کا بیان۔ زہری کہتے ہیں کہ جب کتا کسی (پانی کے بھرے) برتن میں منہ ڈال دے اور اس کے علاوہ وضو کے لیے اور پانی موجود نہ ہو تو اس سے وضو کیا جا سکتا ہے۔ سفیان کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے سمجھ میں آتا ہے۔ جب پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو اور کتے کا جھوٹا پانی (تو) ہے۔ (مگر) طبیعت اس سے نفرت کرتی ہے۔ (بہرحال) اس سے وضو کر لے۔ اور (احتیاطاً) تیمم بھی کر لے۔