سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
40. باب فِي الْغِيبَةِ
باب: غیبت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4875
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حَسْبُكَ مِنْ صَفِيَّةَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: غَيْرُ مُسَدَّدٍ تَعْنِي قَصِيرَةً، فَقَالَ لَقَدْ قُلْتِ كَلِمَةً لَوْ مُزِجَتْ بِمَاءِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْهُ , قَالَتْ: وَحَكَيْتُ لَهُ إِنْسَانًا، فَقَالَ: مَا أُحِبُّ أَنِّي حَكَيْتُ إِنْسَانًا وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ کے لیے تو صفیہ رضی اللہ عنہا کا یہ اور یہ عیب ہی کافی ہے، یعنی پستہ قد ہونا تو آپ نے فرمایا: تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر وہ سمندر کے پانی میں گھول دی جائے تو وہ اس پر بھی غالب آ جائے اور میں نے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اگرچہ میرے لیے اتنا اور اتنا (مال) ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/صفة القیامة 51 (2502، 2503)، (تحفة الأشراف: 16132)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/128، 136، 189، 206) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2502  
´باب:۔۔۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: مجھے یہ پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے۔‏‏‏‏ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیشک صفیہ ایک عورت ہیں، اور اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا، گویا یہ مراد لے رہی تھیں کہ صفیہ پستہ قد ہیں۔ آپ نے فرمایا: بیشک تم نے اپنی باتوں میں ایسی بات ملائی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا رنگ بدل جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2502]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ کسی کی نقل بھی غیبت میں شامل ہے،
اس لیے بطور تحقیر کسی کے جسمانی عیب کی نقل اتارنا یا تنقیص کے لیے اسے بیان کرنا سخت گناہ کا باعث ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2502   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4875  
´غیبت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ کے لیے تو صفیہ رضی اللہ عنہا کا یہ اور یہ عیب ہی کافی ہے، یعنی پستہ قد ہونا تو آپ نے فرمایا: تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر وہ سمندر کے پانی میں گھول دی جائے تو وہ اس پر بھی غالب آ جائے اور میں نے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اگرچہ میرے لیے اتنا اور اتنا (مال) ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4875]
فوائد ومسائل:
کسی کی فطری خلقت پر عیب لگانا اور تمسخر اور ٹھٹھا کرنا حرام ہے۔
یہ گو یا اللہ عزوجل پر عیب لگانا اور اپنی بڑائی کا اظہار ہے۔
جب فطری امور پر عیب لگانا حرام ہے تو اعمال پر تبصرہ بھی جائز نہیں الا یہ کہ کوئی مصیبت کا عمل ہوتا کہ عبرت ہو۔
اگر اس نے توبہ کرلی ہو تو ذکر کرنا بالاولٰی جائز نہیں۔
البتہ اعمالِ خیر کا ذکر جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4875