صحيح البخاري
كِتَاب الْمُحْصَرِ -- کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
1M. بَابُ إِذَا أُحْصِرَ الْمُعْتَمِرُ:
باب: اگر عمرہ کرنے والے کو راستے میں روک دیا گیا تو (وہ کیا کرے)۔
وَقَوْلِهِ تَعَالَى: فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ سورة البقرة آية 196، وَقَالَ عَطَاءٌ: الْإِحْصَارُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يَحْبِسُهُ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: حَصُورًا لَا يَأْتِي النِّسَاءَ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس تم اگر روک دیئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو وہ مکہ بھیجو اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاؤ (یعنی احرام نہ کھولو) جب تک قربانی کا جانور اپنے ٹھکانے (یعنی مکہ پہنچ کر ذبح نہ ہو جائے) اور عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے کہا کہ جو چیز بھی روکے اس کا یہی حکم ہے۔
حدیث نمبر: 1806
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حِينَ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ مُعْتَمِرًا فِي الْفِتْنَةِ، قَالَ:" إِنْ صُدِدْتُ عَنْ الْبَيْتِ، صَنَعْتُ كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مِنْ أَجْلِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فساد کے زمانہ میں عمرہ کرنے کے لیے جب مکہ جانے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے کعبہ شریف پہنچنے سے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگوں نے کیا تھا، چنانچہ آپ نے بھی صرف عمرہ کا احرام باندھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیبیہ کے سال صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 303  
´عمرہ کی نیت کے ساتھ بعد میں حج کی نیت کرنا`
«. . . 223- وبه: أن ابن عمر خرج إلى مكة معتمرا فى الفتنة، فقال: إن صددت عن البيت صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأهل بعمرة من أجل أن النبى صلى الله عليه وسلم كان أهل بعمرة عام الحديبية، ثم إن عبد الله بن عمر نظر فى أمره، فقال: ما أمرهما إلا واحد، فالتفت إلى أصحابه، فقال: ما أمرهما إلا واحد، أشهدكم أني قد أوجبت الحج مع العمرة، قال: ثم طاف طوافا واحدا، ورأى أن ذلك مجزئ عنه وأهدى. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فتنے (جنگ) کے زمانے میں عمرہ کرنے کے لئے مکہ کی طرف چلے تو فرمایا: اگر مجھے بیت اللہ سے روک دیا گیا تو ہم اس طرح کریں گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر انہوں نے اس وجہ سے عمرے کی لبیک کہی کہ حدبیبہ والے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کی لبیک کہی تھی، پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے مسئلے میں غور کیا تو فرمایا: دونوں (عمر ے اور حج) کا تو ایک ہی حکم ہے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کے ساتھ اپنے آپ پر حج لازم کر لیا ہے، پھر انہوں نے ایک طواف کیا اور یہ سمجھے کہ یہ کافی ہے اور قربانی کی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 303]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1806، ومسلم 1230، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ عمرے کی نیت کرنے والا بعد میں عمرے اور حج دونوں یعنی حجِ قِران کی نیت کرلے تو جائز ہے۔
➋ اگر راستہ خطرناک ہو تو بھی حج اور عمرے کے لئے بیت اللہ کا سفر کرنا جائز ہے۔
➌ اگر کوئی شخص حالتِ احرام میں عمرہ یا حج کرنے کی نیت سے مکہ آئے اور کسی عذر کی وجہ سے حرم سے روک دیا جائے تو وہ احرام کھولے اور ایک بکری ذبح کرکے فدیہ دے۔ بعد میں اسے اس عمرے یا حج کی قضا ادا کرنا ہوگی۔ واللہ اعلم
➍ تمام امور میں طریقۂ نبوی کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
➎ مسائل میں خوب غور وخوض کے بعد فتویٰ دینا چاہئے۔
➏ اگر کسی مسئلے میں تحقیق بدل جائے تو سابقہ بات سے رجوع کرکے نئی تحقیق پر عمل کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 223   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1806  
1806. حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فتنہ ابن زبیر کے زمانے میں عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے تو کہا: اگر مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے سے روکا گیا تو میں وہی کچھ کروں گا جو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کیا تھا، چنانچہ انھوں نے اس بناپر احرام باندھ لیا جیسا رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے سال احرام باندھا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1806]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے چھ ہجری میں عمرے کا ارادہ کیا تو مشرکین نے آپ کو بیت اللہ پہنچنے سے روک دیا۔
اس موقع پر سورۂ فتح نازل ہوئی۔
صحابۂ کرام ؓ کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنے قربانی کے جانور ذبح کر دیں، سر منڈوا کر احرام کھول دیں۔
حضرت ابن عمر ؓ نے اسی واقعۂ حدیبیہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رکاوٹ کے وقت عمرے کا احرام بھی کھولا جا سکتا ہے جبکہ بعض حضرات احصار کو صرف حج کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حج کا وقت مقرر ہے جبکہ عمرہ تو کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ان کا موقف متعدد احادیث کے خلاف ہے۔
امام بخاری ؒ نے انہی حضرات کی تردید کے لیے یہ احادیث پیش کی ہیں۔
پھر احصار کسی معین امر سے نہیں ہوتا بلکہ جو بیمار ہو جائے یا دشمن کا خطرہ ہو یا خرچہ ختم ہو جائے، بہرحال جس صورت میں بھی بیت اللہ تک نہ پہنچ سکتا ہو وہ محصر ہو گا اور اس پر احصار کے احکام لاگو ہوں گے۔
(3)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا مقصد یہ تھا کہ اگر مجھے عمرہ کرنے سے روک دیا گیا تو میں وہی کروں گا جو ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا، یعنی عمرے کا احرام کھول دوں گا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام کھول دیا تھا۔
(4)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح حج میں احصار ممکن ہے عمرے میں بھی ہو سکتا ہے۔
امام بخاری ؒ بھی اسی موقف کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ اس کی تفصیل درج ذیل حدیث میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1806