سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
70. باب فِي تَغْيِيرِ الاِسْمِ الْقَبِيحِ
باب: برے نام کو بدل دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4955
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ هَانِئٍ،" أَنَّهُ لَمَّا وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ قَوْمِهِ سَمِعَهُمْ يَكْنُونَهُ بابي الْحَكَمِ، فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَكَمُ وَإِلَيْهِ الْحُكْمُ، فَلِمَ تُكْنَىبابا الْحَكَمِ , فَقَالَ: إِنَّ قَوْمِي إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ أَتَوْنِي فَحَكَمْتُ بَيْنَهُمْ، فَرَضِيَ كِلَا الْفَرِيقَيْنِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَحْسَنَ هَذَا، فَمَا لَكَ مِنَ الْوَلَدِ؟ , قَالَ: لِي شُرَيْحٌ، وَمُسْلِمٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ , قَالَ: فَمَنْ أَكْبَرُهُمْ؟ قُلْتُ: شُرَيْحٌ , قَالَ: فَأَنْتَ أَبُو شُرَيْحٍ" , قَالَ أبو داود: شُرَيْحٌ هَذَا: هُوَ الَّذِي كَسَرَ السِّلْسِلَةَ، وَهُوَ مِمَّنْ دَخَلَ تُسْتَرَ، قَالَ أبو داود: وَبَلَغَنِي أَنَّ شُرَيْحًا كَسَرَ باب تُسْتَرَ، وَذَلِك أَنْهُ دَخَلَ مِنْ سِرْبٍ.
ابوشریح ہانی کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی قوم کے ساتھ وفد میں آئے، تو آپ نے ان لوگوں کو سنا کہ وہ انہیں ابوالحکم کی کنیت سے پکار رہے تھے، آپ نے انہیں بلایا، اور فرمایا: حکم تو اللہ ہے، اور حکم اسی کا ہے تو تمہاری کنیت ابوالحکم کیوں ہے؟ انہوں نے کہا: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی معاملے میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ہی ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اور دونوں فریق اس پر راضی ہو جاتے ہیں، آپ نے فرمایا: یہ تو اچھی بات ہے، تو کیا تمہارے کچھ لڑکے بھی ہیں؟ انہوں نے کہا: شریح، مسلم اور عبداللہ میرے بیٹے ہیں آپ نے پوچھا: ان میں بڑا کون ہے؟ میں نے عرض کیا: شریح آپ نے فرمایا: تو تم ابوشریح ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شریح ہی وہ شخص ہیں جس نے زنجیر توڑی تھی اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جو تستر میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کی شریح نے ہی تستر کا دروازہ توڑا تھا اور وہی نالے کے راستے سے اس میں داخل ہوئے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/آداب القضاة 7 (5389)، (تحفة الأشراف: 11725) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4955  
´برے نام کو بدل دینے کا بیان۔`
ابوشریح ہانی کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی قوم کے ساتھ وفد میں آئے، تو آپ نے ان لوگوں کو سنا کہ وہ انہیں ابوالحکم کی کنیت سے پکار رہے تھے، آپ نے انہیں بلایا، اور فرمایا: حکم تو اللہ ہے، اور حکم اسی کا ہے تو تمہاری کنیت ابوالحکم کیوں ہے؟ انہوں نے کہا: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی معاملے میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ہی ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اور دونوں فریق اس پر راضی ہو جاتے ہیں، آپ نے فرمایا: یہ تو اچھی بات ہے، تو کیا تمہارے کچھ لڑکے بھی ہیں؟ انہوں نے کہا: شریح، مسلم ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4955]
فوائد ومسائل:
1) مبالغہ آمیز نام اور کنیتیں رکھنا درست نہیں اور چاہیئے کہ غلط نام بدل دیئے جائیں۔

2) بہتر یہ ہے کہ انسان اپنت بڑے بیٹے کے نام پر اپنی کنیت رکھے۔

3) تُسر ایران میں علاقہ خوزستان میں ایک شہر کا نام ہے، اسے یاشستر بھی کہتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4955