صحيح البخاري
كِتَاب الْمُحْصَرِ -- کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
1M. بَابُ إِذَا أُحْصِرَ الْمُعْتَمِرُ:
باب: اگر عمرہ کرنے والے کو راستے میں روک دیا گیا تو (وہ کیا کرے)۔
حدیث نمبر: 1807
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَسَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَاهُ، أَنَّهُمَا كَلَّمَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَيَالِيَ نَزَلَ الْجَيْشُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالَا: لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَحُجَّ الْعَامَ، وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ يُحَالَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَقَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ دُونَ الْبَيْتِ، فَنَحَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدْيَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ، وَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ الْعُمْرَةَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْطَلِقُ، فَإِنْ خُلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْبَيْتِ طُفْتُ، وَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا شَأْنُهُمَا وَاحِدٌ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجَّةً مَعَ عُمْرَتِي، فَلَمْ يَحِلَّ مِنْهُمَا حَتَّى حَلَّ يَوْمَ النَّحْرِ، وَأَهْدَى، وَكَانَ يَقُولُ: لَا يَحِلُّ حَتَّى يَطُوفَ طَوَافًا وَاحِدًا يَوْمَ يَدْخُلُ مَكَّةَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے نافع سے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ جن دنوں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر حجاج کی لشکر کشی ہو رہی تھی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے کہا (کیونکہ آپ مکہ جانا چاہتے تھے) کہ اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو کوئی نقصان نہیں کیونکہ ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ کو بیت اللہ پہنچنے سے روک نہ دیا جائے۔ آپ بولے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے اور کفار قریش ہمارے بیت اللہ تک پہنچنے میں حائل ہو گئے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی نحر کی اور سر منڈا لیا، عبداللہ نے کہا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے بھی ان شاءاللہ عمرہ اپنے پر واجب قرار دے لیا ہے۔ میں ضرور جاؤں گا اور اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچنے کا راستہ مل گیا تو طواف کروں گا، لیکن اگر مجھے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، میں اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا چنانچہ آپ نے ذو الحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا پھر تھوڑی دور چل کر فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی ہیں، اب میں بھی تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب قرار دے لیا ہے، آپ نے حج اور عمرہ دونوں سے ایک ساتھ فارغ ہو کر ہی دسویں ذی الحجہ کو احرام کھولا اور قربانی کی۔ آپ فرماتے تھے کہ جب تک حاجی مکہ پہنچ کر ایک طواف زیارت نہ کر لے پورا احرام نہ کھولنا چاہئے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1807  
1807. حضرت عبید اللہ بن عبداللہ اور حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ان دنوں گفتگوکی جب (حجاج کا) لشکر حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کے خلاف مکہ پہنچ چکا تھا۔ ان دونوں نے عرض کیا: اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو آپ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ مبادا آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو کفار قریش بیت اللہ کے سامنے رکاوٹ بن گئے۔ نبی ﷺ نے ایسے حالات میں اپنی قربانی ذبح کردی اور سر مبارک منڈوادیا۔ لہٰذا میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرہ واجب کرچکا ہوں۔ اگر اللہ نے چاہا تو میں ضرور جاؤں گا۔ اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو میں بیت اللہ کا طواف کروں گا۔ اس کے برعکس اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ آگئی تو میں وہی عمل کروں گا جو نبی ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1807]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پر حجاج کی لشکر کشی اور اس سلسلہ میں بہت سے مسلمانوں کا خون ناحق حتی کہ کعبہ شریف کی بے حرمتی یہ اسلامی تاریخ کے وہ دردناک واقعات ہیں جن کے تصور سے آج بھی جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ان کا خمیازہ پوری امت آج تک بھگت رہی ہے، اللہ اہل اسلام کو سمجھ دے کہ وہ اس دور تاریک میں اتحاد باہمی سے کام لے کر دشمنان اسلام کا مقابلہ کریں، جن کی ریشہ دوانیوں نے آج بیت المقدس کو مسلمانوں کے ہاتھ سے نکال لیا ہے۔
إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔
اللهم انصر الإسلام و المسلمین آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1807