صحيح البخاري
كِتَاب الْمُحْصَرِ -- کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
3. بَابُ النَّحْرِ قَبْلَ الْحَلْقِ فِي الْحَصْرِ:
باب: رک جانے کے وقت سر منڈوانے سے پہلے قربانی کرنا۔
حدیث نمبر: 1812
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَدْرٍ شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيِّ، قَالَ: وَحَدَّثَ نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ، وَسَالِمًا، كَلَّمَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَمِرِينَ، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ دُونَ الْبَيْتِ، فَنَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُدْنَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابوبدر شجاع بن ولید نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر بن محمد عمری نے بیان کیا اور ان سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے گفتگو کی، (کہ وہ اس سال مکہ نہ جائیں) تو انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر گئے تھے اور کفار قریش نے ہمیں بیت اللہ سے روک دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کو نحر کیا اور سر منڈایا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 632  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی حجامت کرانے سے پہلے کی اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 632]
632راوئ حدیث:
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ مسور کے میم کے نیچے کسرہ سین ساکن اور واو پر فتحہ ہے۔ مخرمہ میں میم پر فتحہ خا ساکن اور را پر فتحہ ہے۔ زہری قرشی ہیں۔ صاحب فضل لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مکہ منتقل ہو گئے۔ یزید بن معاویہ نے جب 64 ہجری کے آغاز میں مکے کا محاصرہ کیا تو اس وقت نماز پڑھتے ہوئے انہیں منجنیق کا پتھر آ کر لگا اور وہ وفات پا گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 632   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1812  
1812. حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ اور حضرت سالم نے اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مکہ مکرمہ نہ جانے کے متعلق گفتگو کی تو انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہیں اونٹ کی قربانی کردی اور اپنا سر مبارک منڈوادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1812]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جمہور علماءکے قول کی تائید ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ احصار کی صورت میں جہاں احرام کھولے وہیں قربانی کرلے خواہ حل میں ہو یا حرم میں، اور امام ابوحنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ قربانی حرم میں بھیج دی جائے اور جب وہاں ذبح ہولے تب احرام کھولے فقال الجمهور یذبح المحصر الهدي حیث یحل سواءکان في الحل أو في الحرم الخ (فتح)
یعنی جسے حج سے روک دیا جائے وہ جہاں احرام کھولے حل میں ہو یا حرم میں اسی جگہ قربانی کر ڈالے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1812   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1812  
1812. حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ اور حضرت سالم نے اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مکہ مکرمہ نہ جانے کے متعلق گفتگو کی تو انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہیں اونٹ کی قربانی کردی اور اپنا سر مبارک منڈوادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1812]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام مالک ؒ کا موقف ہے کہ محصر پر قربانی کرنا ضروری نہیں جبکہ مذکورہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے کیونکہ اس میں حکم اور سببِ حکم بیان ہوا ہے۔
سبب احصار ہے اور حکم سبب قربانی کرنا ہے۔
اس حدیث کے ظاہری الفاظ کا یہی تقاضا ہے کہ اس حکم کو سبب سے وابستہ کیا جائے۔
(فتح الباري: 14/4)
واللہ أعلم۔
(2)
اس حدیث سے بھی جمہور علماء کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ احصار کی صورت میں جہاں احرام کھولے وہیں قربانی ذبح کر دے، خواہ وہ مقام حل میں ہو یا حرم کا حصہ، جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قربانی کو حرم میں بھیج دیا جائے، جب وہاں ذبح ہو جائے تو احرام کھولا جائے۔
حدیث سے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1812