صحيح البخاري
كِتَاب الْمُحْصَرِ -- کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
8. بَابُ النُّسُكُ شَاةٌ:
باب: قرآن مجید میں «نسك» سے مراد بکری ہے۔
حدیث نمبر: 1818
وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَآهُ وَقَمْلُهُ يَسْقُطُ عَلَى وَجْهِهِ، مِثْلَهُ.
اور محمد بن یوسف سے روایت ہے کہ ہم کو ورقاء نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے بیان کیا، انہیں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے خبر دی اور انہیں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو جوئیں ان کے چہرہ پر گر رہی تھی، پھر یہی حدیث بیان کی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1818  
1818. حضرت کعب بن عجرہ ؓ ہی سی روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دیکھا جبکہ ان کے چہرے پر جوئیں گر رہی تھیں۔ پھر اسی طرح حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1818]
حدیث حاشیہ:
یعنی آیت کریمہ ﴿فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ﴾ میں بکری مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1818   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1818  
1818. حضرت کعب بن عجرہ ؓ ہی سی روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دیکھا جبکہ ان کے چہرے پر جوئیں گر رہی تھیں۔ پھر اسی طرح حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1818]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے قرآنی آیت میں لفظ نسك کی وضاحت ہوئی کہ اس سے مراد بکری ہے، چنانچہ حضرت مجاہد کی بیان کردہ روایت کے آخر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ﴾ وہ شخص روزوں سے یا صدقے سے یا قربانی سے اس کا فدیہ ادا کرے۔
(البقرة: 196: 2)
اور آیت کریمہ میں نسك سے مراد بکری ہے۔
(فتح الباري: 24/4)
ابوداود کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1859)
لیکن اس روایت میں حضرت نافع اور حضرت کعب بن عجرہ ؓ کے درمیان ایک واسطہ ہے جس کے متعلق محدثین کا اختلاف ہے، نیز صحیح بخاری کے مقابلے میں اس روایت کی کوئی حیثیت نہیں۔
واللہ أعلم۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت کعب بن عجرہ ؓ نے جوؤں کی تکلیف کے باعث اپنا سر منڈوایا تھا، رکاوٹ پڑنے کی وجہ سے یہ کام نہیں کیا تھا۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جسے بیت اللہ تک پہنچنے کی امید ہو وہ ٹھہرا رہے حتی کہ وہاں جانے سے نا امید ہو جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1818