صحيح البخاري
كِتَاب جَزَاءِ الصَّيْدِ -- کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
2. بَابُ إِذَا صَادَ الْحَلاَلُ فَأَهْدَى لِلْمُحْرِمِ الصَّيْدَ أَكَلَهُ:
باب: اگر بے احرام والا شکار کرے اور احرام والے کو تحفہ بھیجے تو وہ کھا سکتا ہے۔
وَلَمْ يَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٌ بِالذَّبْحِ بَأْسًا وَهُوَ غَيْرُ الصَّيْدِ نَحْوُ الْإِبِلِ، وَالْغَنَمِ، وَالْبَقَرِ، وَالدَّجَاجِ، وَالْخَيْلِ، يُقَالُ عَدْلُ ذَلِكَ مِثْلُ، فَإِذَا كُسِرَتْ عِدْلٌ فَهُوَ زِنَةُ ذَلِكَ قِيَامًا قِوَامًا يَعْدِلُونَ يَجْعَلُونَ عَدْلًا.
‏‏‏‏ اور انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم (محرم کے لیے) شکار کے سوا دوسرے جانور مثلاً اونٹ، بکری، گائے، مرغی اور گھوڑے کے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ قرآن میں لفظ «غدل» (بفتح غین) مثل کے معنی میں بولا گیا ہے اور «عدل» (عین کو) جب زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو وزن کے معنی میں ہو گا، «قياما» «قواما‏» (کے معنی میں ہے، «قيم») «يعدلون» کے معنی میں مثل بنانے کے۔
حدیث نمبر: 1821
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ:" انْطَلَقَ أَبِي عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ يُحْرِمْ، وَحُدِّثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَدُوًّا يَغْزُوهُ، فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَيْنَمَا أَنَا مَعَ أَصْحَابِهِ تَضَحَّكَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا أَنَا بِحِمَارِ وَحْشٍ، فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ، فَطَعَنْتُهُ، فَأَثْبَتُّهُ وَاسْتَعَنْتُ بِهِمْ، فَأَبَوْا أَنْ يُعِينُونِي، فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهِ وَخَشِينَا أَنْ نُقْتَطَعَ، فَطَلَبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْفَعُ فَرَسِي شَأْوًا وَأَسِيرُ شَأْوًا، فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ بَنِي غِفَارٍ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، قُلْتُ: أَيْنَ تَرَكْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: تَرَكْتُهُ بِتَعْهَنَ وَهُوَ قَائِلٌ السُّقْيَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَهْلَكَ يَقْرَءُونَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ، إِنَّهُمْ قَدْ خَشُوا أَنْ يُقْتَطَعُوا دُونَكَ فَانْتَظِرْهُمْ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" أَصَبْتُ حِمَارَ وَحْشٍ، وَعِنْدِي مِنْهُ فَاضِلَةٌ؟ فَقَالَ لِلْقَوْمِ: كُلُوا وَهُمْ مُحْرِمُونَ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ ابن کثیر نے، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے بیان کیا کہ میرے والد صلح حدیبیہ کے موقع پر (دشمنوں کا پتہ لگانے) نکلے۔ پھر ان کے ساتھیوں نے تو احرام باندھا لیا لیکن (خود انہوں نے ابھی) نہیں باندھا تھا (اصل میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے یہ اطلاع دی تھی کہ مقام غیقہ میں دشمن آپ کی تاک میں ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابوقتادہ اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کی تلاش میں) روانہ کیا میرے والد (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے (میرے والد نے بیان کیا کہ) میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ایک جنگلی گدھا سامنے ہے۔ میں اس پر جھپٹا اور نیزے سے اسے ٹھنڈا کر دیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد چاہی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا، پھر ہم نے گوشت کھایا۔ اب ہمیں یہ ڈر ہوا کہ کہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) دور نہ ہو جائیں، چنانچہ میں نے آپ کو تلاش کرنا شروع کر دیا کبھی اپنے گھوڑے تیز کر دیتا اور کبھی آہستہ، آخر رات گئے بنو غفار کے ایک شخص سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جب میں آپ سے جدا ہوا تو آپ مقام تعھن میں تھے اور آپ کا ارادہ تھا کہ مقام سقیا میں پہنچ کر دوپہر کا آرام کریں گے۔ غرض میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور میں نے عرض کی یا رسول اللہ! آپ کے اصحاب آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتے ہیں۔ انہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ بہت پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس لیے آپ ٹھہر کر ان کا انتظار کریں، پھر میں نے کہا یا رسول اللہ! میں نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا تھا اور اس کا کچھ بچا ہوا گوشت اب بھی میرے پاس موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کھانے کے لیے فرمایا حالانکہ وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1821  
1821. حضرت عبد اللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میرے والد محترم (ابو قتادہ ؓ)حدیبیہ کے سال روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھیوں نے احرام باندھا لیکن انھوں نے نہیں باندھا تھا۔ نبی ﷺ کو بتایا گیا کہ مقام غیقہ میں دشمن آپ سے جنگ کرنا چاہتا ہے لیکن نبی ﷺ نے اپنے سفر کو جاری رکھا۔ میرے والد اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ اچانک وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ (میرے والد نے بیان کیا کہ میں متوجہ ہوا) تو میں نے دیکھا کہ ایک جنگلی گدھا سامنے ہے۔ میں نے اس پر حملہ کردیا اور اسے زخمی کر کے ٹھہرنے پر مجبورکردیا۔ میں نے اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے تعاون چاہا لیکن انھوں نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا۔ بہر حال ہم نے اس کا کچھ گوشت کھایا۔ اسی اثنا میں ہمیں خطرہ لاحق ہواکہ مبادا ہم(رسول اللہ ﷺ سے)پیچھے رہ جائیں، چنانچہ میں نے نبی ﷺ کو تلاش کرنا شروع کیا۔ میں اپنے گھوڑے کو کبھی دوڑاتا اور کبھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1821]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم انسان شکار کا گوشت کھا سکتا ہے بشرطیکہ اس نے شکار کرنے میں کسی قسم کا تعاون نہ کیا ہو اور نہ اس کے متعلق کوئی خبر ہی دی ہو حتی کہ غیر محرم اسے خود ہی دیکھے اور شکار کرے، محرم کے اشارے یا رہنمائی کرنے سے اسے معلوم نہ ہوا ہو۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو شکار کا گوشت پیش کیا گیا لیکن آپ نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔
اس کا محمل یہ ہے کہ وہ شکار آپ کے لیے کیا گیا تھا۔
واللہ أعلم۔
(2)
اصل واقعہ یوں ہے کہ حضرت ابو قتادہ ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے۔
راستے میں آپ ﷺ کو اطلاع ملی کہ وادئ غیقہ میں کچھ دشمن ہیں جو مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔
آپ نے حضرت ابو قتادہ ؓ سمیت کئی لوگوں کو ساحل سمندر کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا تاکہ دشمن بے خبری سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
جب خطرہ ٹل گیا تو باقی ساتھیوں نے احرام باندھ لیا لیکن حضرت ابو قتادہ نے احرام نہ باندھا اور جب انہوں نے احرام نہ باندھا تو ان کے لیے شکار کرنا جائز ہوا۔
(فتح الباري: 31/4) (3)
تعهن ایک چشمے کا نام ہے جو سقیا نامی بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔
اور سقیا مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بڑی بستی کا نام ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1821