صحيح البخاري
كِتَاب جَزَاءِ الصَّيْدِ -- کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
3. بَابُ إِذَا رَأَى الْمُحْرِمُونَ صَيْدًا فَضَحِكُوا فَفَطِنَ الْحَلاَلُ:
باب: احرام والے لوگ شکار دیکھ کر ہنس دیں اور بے احرام والا سمجھ جائے پھر شکار کرے تو وہ احرام والے بھی کھا سکتے ہیں۔
حدیث نمبر: 1822
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، قَالَ:" انْطَلَقْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ أُحْرِمْ، فَأُنْبِئْنَا بِعَدُوٍّ بِغَيْقَةَ فَتَوَجَّهْنَا نَحْوَهُمْ، فَبَصُرَ أَصْحَابِي بِحِمَارِ وَحْشٍ، فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَضْحَكُ إِلَى بَعْضٍ، فَنَظَرْتُ فَرَأَيْتُهُ، فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ الْفَرَسَ، فَطَعَنْتُهُ، فَأَثْبَتُّهُ، فَاسْتَعَنْتُهُمْ، فَأَبَوْا أَنْ يُعِينُونِي فَأَكَلْنَا مِنْهُ، ثُمَّ لَحِقْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَشِينَا أَنْ نُقْتَطَعَ أَرْفَعُ فَرَسِي شَأْوًا وَأَسِيرُ عَلَيْهِ شَأْوًا، فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ بَنِي غِفَارٍ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: أَيْنَ تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: تَرَكْتُهُ بِتَعْهَنَ وَهُوَ قَائِلٌ السُّقْيَا، فَلَحِقْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَصْحَابَكَ أَرْسَلُوا يَقْرَءُونَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ وَبَرَكَاتِهِ، وَإِنَّهُمْ قَدْ خَشُوا أَنْ يَقْتَطِعَهُمُ الْعَدُوُّ دُونَكَ فَانْظُرْهُمْ، فَفَعَلَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا اصَّدْنَا حِمَارَ وَحْشٍ وَإِنَّ عِنْدَنَا فَاضِلَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: كُلُوا وَهُمْ مُحْرِمُونَ".
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے، کہا ان سے ان کے باپ نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے ان کے ساتھیوں نے تو احرام باندھ لیا تھا لیکن ان کا بیان تھا کہ میں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ ہمیں غیقہ میں دشمن کے موجود ہونے کی اطلاع ملی اس لیے ہم ان کی تلاش میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق) نکلے پھر میرے ساتھیوں نے گورخر دیکھا اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے میں نے جو نظر اٹھائی تو اسے دیکھ لیا گھوڑے پر (سوار ہو کر) اس پر جھپٹا اور اسے زخمی کر کے ٹھنڈا کر دیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کچھ امداد چاہی لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر ہم سب نے اسے کھایا اور اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (پہلے) ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور نہ رہ جائیں اس لیے میں کبھی اپنا گھوڑا تیز کر دیتا اور کبھی آہستہ آخر میری ملاقات ایک بنی غفار کے آدمی سے آدھی رات میں ہوئی میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعہن نامی جگہ میں الگ ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ یہ تھا کہ دوپہر کو مقام سقیا میں آرام کریں گے پھر جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ! آپ کے اصحاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور انہیں ڈر ہے کہ کہیں دشمن آپ کے اور ان کے درمیان حائل نہ ہو جائے اس لیے آپ ان کا انتظار کیجئے چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا، میں نے یہ بھی عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں نے ایک گورخر کا شکار کیا اور کچھ بچا ہوا گوشت اب بھی موجود ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کے کھاؤ حالانکہ وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 599  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ان کے جنگلی گدھے کو شکار کرنے کے قصے میں جبکہ انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا، مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا اور وہ احرام والے تھے کیا تم میں سے کسی نے اسے حکم دیا تھا یا اس کی طرف کسی چیز سے اشارہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس کھاؤ اس کے گوشت سے جو بچ گیا ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 599]
599 لغوی تشریح:
«فِي فِصَّةِ صَيْدِهِ الْحِمَارِ الْوَحْشِي» جنگلی گدھے کو شکار کرنے کے قصے میں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس قصے کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کے لیے نکلے، مگر اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا، البتہ ان کے ساتھی احرام کی حالت میں تھے۔ جب انہوں نے وحشی گدھا دیکھا تو اسے نظر انداز کر دیا۔ جب ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور ساتھیوں سے کہا کہ میری لاٹھی پکڑاؤ، انہوں نے اس سے انکار کر دیا، پھر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اس پر حملہ آور ہوئے اور اسے زخمی کر دیا۔ ذبح کر کے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا گوشت کھایا اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھایا مگر پھر وہ پریشان ہو گئے۔ بالآخر جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سارا ماجرا عرض کیا جس کا جواب اس روایت میں مذکور ہے۔
➋ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جنگلی جانور کا شکار جب غیر محرم کرے اور محرم نے اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد نہ کی ہو اور نہ اس بارے میں کوئی اشارہ ہی کیا ہو تو محرم بھی اس میں سے کھا سکتا ہے مگر اس بارے میں مزید تفصیل ہے جو آئندہ حدیث کے تحت آرہی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 599   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1822  
1822. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم حدیبیہ کے سال نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ آپ کے تمام اصحاب نے احرام باندھ لیا مگر میں نے احرام نہ باندھا۔ پھر ہمیں خبر ملی تھی کہ مقام غیقہ میں دشمن موجود ہے، لہٰذا ہم ان کی طرف چل دیے۔ میرے ساتھیوں نےایک جنگلی گدھا دیکھا تو وہ ایک دوسرےکو دیکھ کر ہنسے۔ میں نے نظر اٹھائی تو اسے دیکھا، اس کے پیچھے گھوڑا دوڑایا اور اسے زخمی کر کے گرالیا۔ پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے مدد چاہی لیکن انھوں نے میری مدد کرنے سے صاف انکار کردیا۔ بالآخر ہم سب نے اس کا گوشت کھایا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ سے جا ملا۔ ہمیں خوف تھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے پیچھےرہ جائیں گے اس لیے میں کبھی اپنے گھوڑےکو تیزچلاتا اور کبھی آہستہ چلاتا، بالآخرمیں آدھی رات کو بنو غفارکے ایک شخص سے ملا تو اس سے دریافت کیا کہ تونے رسول اللہ ﷺ کو کہاں چھوڑا ہے؟اس نے کہا: میں نے آپ کو تعہن چشمےپر چھوڑاتھا اور آپ مقام سقیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1822]
حدیث حاشیہ:
(1)
محرم کے خود شکار کرنے پر پابندی ہے اور وہ اس سلسلے میں کسی قسم کا تعاون بھی نہیں کر سکتا حتی کہ وہ اس کی طرف اشارہ تک بھی نہیں کر سکتا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ابو قتادہ ؓ کے ساتھیوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تو آپ نے فرمایا:
تم میں سے کسی نے اس کی طرف اشارہ تو نہیں کیا تھا؟ انہوں نے کہا:
نہیں۔
اس پر آپ نے فرمایا:
شکار کا بقیہ گوشت کھا لو (صحیح البخاري، جزاءالصید، حدیث: 1824) (2)
اس حدیث میں ہے کہ صحابۂ كرام ؓ جنگلی گدھا دیکھ کر ہنس پڑے۔
یہ ہنسنا اشارے کے لیے نہیں بلکہ اظہار تعجب کے طور پر تھا کہ ہم قدرت رکھنے کے باوجود احرام کی وجہ سے اسے شکار نہیں کر سکتے۔
(3)
امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شکار دیکھ کر اس طرح ہنس پڑنا اس کی طرف اشارہ کرنا نہیں ہے، اس لیے اگر شکار کے سلسلے میں محرم آدمی نے کسی غیر محرم سے کسی قسم کا تعاون نہ کیا ہو تو شکار کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ شکار محرم کے لیے نہ کیا گیا ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1822