صحيح البخاري
كِتَاب جَزَاءِ الصَّيْدِ -- کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
7. بَابُ مَا يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنَ الدَّوَابِّ:
باب: احرام والا کون کون سے جانور مار سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 1830
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَارٍ بِمِنًى، إِذْ نَزَلَ عَلَيْهِ: وَالْمُرْسَلاتِ، وَإِنَّهُ لَيَتْلُوهَا، وَإِنِّي لَأَتَلَقَّاهَا مِنْ فِيهِ، وَإِنَّ فَاهُ لَرَطْبٌ بِهَا إِذْ وَثَبَتْ عَلَيْنَا حَيَّةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْتُلُوهَا، فَابْتَدَرْنَاهَا، فَذَهَبَتْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وُقِيَتْ شَرَّكُمْ، كَمَا وُقِيتُمْ شَرَّهَا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے اسود سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ کے غار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ والمرسلات نازل ہونی شروع ہوئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاوت کرنے لگے اور میں آپ کی زبان سے اسے سیکھنے لگا، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت ختم بھی نہیں کی تھی کہ ہم پر ایک سانپ گرا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے مار ڈالو چنانچہ ہم اس کی طرف لپکے لیکن وہ بھاگ گیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح سے تم اس کے شر سے بچ گئے وہ بھی تمہارے شر سے بچ کر چلا گیا۔ (ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ منیٰ حرم میں داخل ہے اور صحابہ نے حرم میں سانپ مارنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا تھا)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1830  
1830. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ منیٰ کے ایک غار میں تھے۔ اتنے میں سورہ مرسلات آپ پر نازل ہوئی جس کی آپ تلاوت فرمانے لگے اور میں بھی آپ سے سن کر اسے یاد کرنے لگا۔ آپ کا روئے مبارک تلاوت سے ابھی تروتازہ تھا کہ اچانک ایک سانپ ہم لوگوں پر کود نکلا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے مار ڈالو چنانچہ ہم اسے مارنے کے لیے جلدی دوڑے مگر وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: جس طرح تم اس کے ضررسےبچا لیے گئےہواسی طرح وہ بھی تمھارے ضررسے بچا لیا گیاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1830]
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث سے باب کا مطلب نہیں نکلتا، کیوں کہ حدیث میں یہ کہاں ہے کہ صحابہ احرام باندھے ہوئے تھے اور اس کا جواب یہ ہے کہ اسماعیل کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ یہ واقعہ عرفہ کی رات کا ہے اور ظاہر ہے کہ اس وقت سب لوگ احرام باندھے ہوئے ہوں گے۔
پس باب کا مطلب نکل آیا قال ابوعبداللہ الخ یہ عبارت اکثر نسخوں میں نہیں ہے ابوالوقت کی روایت میں ہے۔
اس عبارت سے وہ اشکال رفع ہو جاتا ہے جو اوپر بیان ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1830   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1830  
1830. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ منیٰ کے ایک غار میں تھے۔ اتنے میں سورہ مرسلات آپ پر نازل ہوئی جس کی آپ تلاوت فرمانے لگے اور میں بھی آپ سے سن کر اسے یاد کرنے لگا۔ آپ کا روئے مبارک تلاوت سے ابھی تروتازہ تھا کہ اچانک ایک سانپ ہم لوگوں پر کود نکلا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے مار ڈالو چنانچہ ہم اسے مارنے کے لیے جلدی دوڑے مگر وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: جس طرح تم اس کے ضررسےبچا لیے گئےہواسی طرح وہ بھی تمھارے ضررسے بچا لیا گیاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1830]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ محرم آدمی سانپ کو مار سکتا ہے کیونکہ وہ بھی موذی جانور ہے۔
اس حدیث میں اگرچہ حالت احرام کا ذکر نہیں لیکن ایک روایت میں ہے کہ مذکورہ واقعہ عرفہ کی رات پیش آیا تھا اور عرفہ کی رات تو احرام میں گزاری جاتی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک محرم کو منیٰ کے مقام پر سانپ مارنے کا حکم دیا تھا۔
(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5837(2235)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالتِ احرام میں سانپ مارنا جائز ہے۔
(2)
ابن منذر نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ محرم آدمی سانپ مار سکتا ہے لیکن بعض حضرات نے چھوٹے سانپوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جو نقصان دہ نہ ہوں۔
(فتح الباري: 53/4،54)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1830