سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
1. بَابُ : اتِّبَاعِ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: اتباع سنت کا بیان۔
حدیث نمبر: 5
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ سُمَيْعٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَفْطَسُ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ نَذْكُرُ الْفَقْرَ وَنَتَخَوَّفُهُ، فَقَالَ:" آلْفَقْرَ تَخَافُونَ؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُصَبَّنَّ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا صَبًّا حَتَّى لَا يُزِيغَ قَلْبَ أَحَدِ مِنْكُمْ إِزَاغَةً إِلَّا هِيَهْ، وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى مِثْلِ الْبَيْضَاءِ لَيْلُهَا وَنَهَارُهَا سَوَاءٌ"، قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: صَدَقَ وَاللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَرَكَنَا وَاللَّهِ عَلَى مِثْلِ الْبَيْضَاء، لَيْلُهَا وَنَهَارُهَا سَوَاءٌ.
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم اس وقت غربت و افلاس اور فقر کا تذکرہ کر رہے تھے، اور اس سے ڈر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ فقر سے ڈرتے ہو؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ضرور تم پر دنیا آئندہ ایسی لائی جائے گی کہ اس کی طلب مزید تمہارے دل کو حق سے پھیر دے گی ۱؎، قسم اللہ کی! میں نے تم کو ایسی تابناک اور روشن شریعت پر چھوڑا ہے جس کی رات (تابناکی میں) اس کے دن کی طرح ہے۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا، قسم اللہ کی! آپ نے ہم کو ایک تابناک اور روشن شریعت پر چھوڑا، جس کی رات (تابناکی میں) اس کے دن کی طرح ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10929، ومصباح الزجاجة: 1) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «إلا هيه» میں «ھی» کی ضمیر دنیا کی طرف لوٹ رہی ہے، اور اس کے آخر میں «ھا» ھائے سکت ہے۔ ۲؎: اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے تمہیں ایک ایسے حال پر چھوڑا ہے کہ تمہارے دل پاک و صاف ہیں، ان میں باطل کی طرف کوئی میلان نہیں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے تنگی و خوشحالی کوئی بھی چیز انہیں پھیر نہیں سکتی۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث5  
´اتباع سنت کا بیان۔`
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم اس وقت غربت و افلاس اور فقر کا تذکرہ کر رہے تھے، اور اس سے ڈر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ فقر سے ڈرتے ہو؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ضرور تم پر دنیا آئندہ ایسی لائی جائے گی کہ اس کی طلب مزید تمہارے دل کو حق سے پھیر دے گی ۱؎، قسم اللہ کی! میں نے تم کو ایسی تابناک اور روشن شریعت پر چھوڑا ہے جس کی رات (تابناکی میں) اس کے دن کی طرح ہے۔‏‏‏‏ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا، ق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 5]
اردو حاشہ:
(1)
مفلسی بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تلاش رزق کے حرام طریقے اختیار کر لیتے ہیں اور دولت کی فراخی بھی آزمائش ہے۔
جس کی وجہ سے انسان فخر، تکبر اور لالچ جیسی بیماریوں کا شکار ہو کر بہت سے گناہوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔
اس حدیث میں اشارہ ہے کہ مال کا فتنہ مفلسی کے فتنے سے زیادہ شدید ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر آزمائش سے محفوظ رکھے۔
آمین۔

(2)
اگر قناعت کی دولت حاصل نہ ہو تو دنیا کے مال و دولت کی کثرت کے باوجود دل مطمئن نہیں ہو پاتا بلکہ مزید حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور یہی اندھی حرص بالآخر تباہی کا باعث ہوتی ہے۔
انسان کے سامنے ہر وقت صرف دنیا ہی رہتی ہے، آخرت بالکل فراموش ہو جاتی ہے۔

(3)
شریعت کے مسائل واضح ہیں جنھیں سمجھنا آسان ہے اور اللہ کے احکام آسان ہیں، جن پر عمل کرنا مشکل نہیں۔

(4)
رات اور دن برابر ہونے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں رات اور دن جیسا فرق موجود نہیں، بلکہ ہر چیز واضح اور روشن ہے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح آفتاب نبوت (آپ صلی اللہ علیہ وسلم)
کی موجودگی میں حق اور باطل، صحیح اور غلط کا امتیاز واضح ہے۔
اسی طرح اس آفتاب ہدایت کے غروب (وفات نبوی)
کے بعد بھی کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے، جس کی بنیاد پر غلط و صحیح اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنا بالکل آسان ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 5