سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
1. بَابُ : اتِّبَاعِ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: اتباع سنت کا بیان۔
حدیث نمبر: 6
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ".
قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ایک گروہ کو ہمیشہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل رہے گی ۱؎، اور جو اس کی تائید و مدد نہ کرے گا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/کتاب الفتن 27 (2192)، 51 (2229)، (تحفة الأشراف: 11081)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/436 4/97، 101) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎ «طائفة» کا لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے قلت مراد ہے، یعنی یہ ایک ایسا گروہ ہو گا جو تعداد میں کم ہو گا، یا تعظیم کے لئے ہے یعنی یہ ایک بڑے رتبے والا گروہ ہو گا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس گروہ کے بار ے میں فرماتے ہیں کہ اگر اس سے مراد اہل حدیث نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ پھر اس سے مراد کون ہوں گے، اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاملین بالحدیث کو یہ بشارت دی ہے کہ کسی کی موافقت یا مخالفت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی، اس لئے کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حفاظت و امان میں ہیں، اس لئے متبع سنت کو اس حدیث کی روشنی میں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ حدیث رسول کے ثابت ہو جانے کے بعد سلف صالحین کے فہم و مراد کے مطابق اس پر بلا خوف و خطر عمل کرے اور اگر ساری دنیا بھی اس کی مخالف ہو تو اس کی ذرہ برابر پرواہ نہ کرے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اللہ کا آخری دین ہے، اور اسی پر چل کر ہمارے لئے نجات ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث6  
´اتباع سنت کا بیان۔`
قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے ایک گروہ کو ہمیشہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل رہے گی ۱؎، اور جو اس کی تائید و مدد نہ کرے گا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 6]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ شرف بخشا ہے کہ وہ اس طرح مکمل طور پر گمراہ نہیں ہو گی جس طرح سابقہ امتیں گمراہ ہو گئیں کہ ان میں سے کوئی بھی صراط مستقیم پر قائم نہ رہا۔
إِلَّا مَنْ شَاءَالله.
(2)
دین حق قیامت تک کے لیے محفوظ ہے، کیونکہ قرآن مجید بھی محفوظ ہے اور حدیث نبوی بھی روایتاً اور عملاً محفوظ ہے۔

(3)
حدیث میں جس جماعت کا ذکر کیا گیا ہے، اکثر علماء نے اس سے اصحاب الحدیث کو مراد لیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو مطاع مطلق قرار نہیں دیتے۔
کوئی شخص ارشاد نبوی اور اسوہ نبوی پر جس قدر زیادہ عمل کرنے والا ہو گا، وہ اسی قدر اس حدیث کا زیادہ مصداق ہو گا۔

(4)
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اہل حق کو ابتلاء و آزمائش سے محفوظ رکھا جائے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آزمائش انہیں راہ حق سے ہٹا نہیں سکے گی۔
جس طرح امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیھم اور دیگر بزرگان دین کے حالات زندگی سے ظاہر ہے کہ آخر کار اللہ نے انہیں عزت دی اور ان کا موقف ہی درست تسلیم کیا گیا کیونکہ وہ قرآن و سنت کی نصوص پر مبنی تھا۔

(5)
قیامت تک سے مراد یہ ہے کہ قیامت سے پہلے جب تک اسلام باقی رہے گا کیونکہ بنی آدم کی آخری نسل کی، جن پر قیامت قائم ہو گی، کیفیت یہ ہو گی کہ وہ اللہ کا نام تک نہ لیں گے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قیامت نہیں آئے گی حتی کہ (یہ کیفیت ہو جائے گی کہ)
زمین میں اللہ اللہ نہیں کہا جائے گا۔ (صحيح مسلم، الإيمان، باب ذهاب الإيمان آخر الزمان، حديث: 148)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 6