سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
1. بَابُ : اتِّبَاعِ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: اتباع سنت کا بیان۔
حدیث نمبر: 11
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَالِدًا ، يَذْكُرُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَخَطَّ خَطًّا، وَخَطَّ خَطَّيْنِ عَنْ يَمِينِهِ، وَخَطَّ خَطَّيْنِ عَنْ يَسَارِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ فِي الْخَطِّ الْأَوْسَطِ، فَقَالَ: هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ"، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ سورة الأنعام آية 153.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ نے ایک لکیر کھینچی اور دو لکیریں اس کے دائیں جانب اور دو بائیں جانب کھینچیں، پھر اپنا ہاتھ بیچ والی لکیر پر رکھا اور فرمایا: یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر اس آیت کی تلاوت کی: «وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله» یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی پر چلو، اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے (سورۃ الانعام: ۱۵۳) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2357، ومصباح الزجاجة: 5)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/293، 316، 322، 385) (صحیح) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: السنہ لابن ابی عاصم: 16، وتعلیق عوض الشہری علی مصباح الزجاجة: 5)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا راستہ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ یہ قرآن جو میں نے تمہارے واسطے بھیجا، اور جو رویہ اور طریقہ اس میں تمہارے چلنے کو مقرر فرمایا ہے، یہی میری رضا مندی اور میری طرف پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے، اسی پر چلو اور اس کے علاوہ دیگر راستے تم کو نجات کے راستہ سے بہکا دیں گے، کیونکہ وہ سب شیطان کے راستے ہیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بکمال رأفت و رحمت یہ سب طریقے صاف طور پر ہر آدمی کے لئے واضح فرما دیئے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث11  
´اتباع سنت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ نے ایک لکیر کھینچی اور دو لکیریں اس کے دائیں جانب اور دو بائیں جانب کھینچیں، پھر اپنا ہاتھ بیچ والی لکیر پر رکھا اور فرمایا: یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر اس آیت کی تلاوت کی: «وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله» یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی پر چلو، اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے (سورۃ الانعام: ۱۵۳) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 11]
اردو حاشہ:
(1)
یہ روایت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے تھوڑے سے الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ مسند احمد میں ہے، اس کے محققین نے اسے حَسَن قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية:
(7؍ 208، 436)
نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح ابن ماجہ میں درج کیا ہے، اس اعتبار سے یہ روایت بعض اہل علم کے نزدیک ضعیف ہونے کے باوجود قابل حجت ہے۔
 
(2)
سیدھا راستہ جو اللہ تک پہنچاتا ہے، ایک ہی ہے، جبکہ گمراہی کے راستے بہت سے ہیں۔

(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہی کو ظاہر کرنے کے لیے سیدھے خط کے دونوں طرف خط کھینچے۔
اس طرح اس میں غالبا یہ اشارہ تھا کہ گمراہی بعض اوقات غلو اور افراط کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات تفریط اور کوتاہی کی صورت میں، غلو کی وجہ سے بدعات ایجاد ہوتی ہیں اور شرکیہ اعمال و عقائد اختیار کیے جاتے ہیں، جبکہ تفریط کی وجہ سے فرائض و سنن کی بجا آوری میں کوتاہی ہوتی ہے اور گناہوں کی جرأت پیدا ہوتی ہے اور آخر کار کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔

(4)
سیدھا راستہ افراط و تفریط کے درمیان ہے۔
خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو (جیسے معطلہ اور مشبہ کے درمیان اہل سنت کا راستہ)
یا اعمال سے ہو (جیسے اسراف اور بخل کے درمیان جائز مقام پر خرچ کرنے کا طریقہ۔)

(5)
علمی مسائل کی وضاحت کے لیے اشکال وغیرہ سے مدد لینا درست ہے۔
آج کے دور میں کلاس میں بلیک بورڈ کا استعمال، یا جدید سمعی و بصری اشیاء کا استعمال شریعت کے منافی نہیں، الا یہ کہ کسی صورت یا کسی چیز کا استعمال شریعت کی واضح تعلیمات کے خلاف ہو۔

(6)
ارشادات نبویہ قرآن مجید کی وضاحت پر مبنی ہیں اس لیے بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسئلے کی متعلقہ آیت بھی ذکر فرما دیتے تھے اور بعض اوقات ذکر نہیں فرماتے تھے۔
بہرحال کوئی صحیح حدیث قرآن مجید کے خلاف نہیں، اگر کوئی حدیث بظاہر کسی آیت کے خلاف محسوس ہوتی ہو تو محدثین آیت اور حدیث کی وضاحت اس انداز سے فرما دیتے ہیں کہ اِشکال دور ہو جاتا ہے۔
اس قسم کی مثالیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی ملتی ہیں۔

(7)
اللہ کا راستہ ایک ہی ہے۔
چار یا پانچ یا چھ نہیں۔
اور وہ ایک راستہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات اور عملی اسوہ سے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
فروعی مسائل میں ائمہ کرام کے اختلافات محض اجتہادی اختلاف ہیں، ان کی بنیا د پر امت کا الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہو جانا درست نہیں۔
بدقسمتی سے بہت سے علماء نے ائمہ کرام کے اجتہادات کو اتنی زیادہ اہمیت دے دی کہ انہیں قرآن و حدیث کی نصوص سے بھی بالا تر سمجھ لیا گیا۔
اسی جمود اور تقلیدی طرز عمل کی وجہ سے امت مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئی۔
اب اس تقسیم کو تقسیم ربانی سمجھ کر کہا جاتا ہے کہ سب حق پر ہیں، حالانکہ حق ایک ہی ہو سکتا ہے نہ کہ بیک وقت سب کے سب۔
اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ حق ایک ہی ہے نہ کہ متعدد۔
اللہ کا راستہ ایک ہی ہے نہ کہ چار پانچ۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 11