سنن ابن ماجه
كتاب السنة -- کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
7. بَابُ : اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ
باب: بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔
حدیث نمبر: 46
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ الْمَدَنِيُّ أَبُو عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّمَا هُمَا اثْنَتَانِ: الْكَلَامُ، وَالْهَدْيُ، فَأَحْسَنُ الْكَلَامِ كَلَامُ اللَّهِ، وَأَحْسَنُ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، أَلَا وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدِثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ شَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، أَلَا لَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمُ الْأَمَدُ فَتَقْسُوَ قُلُوبُكُمْ، أَلَا إِنَّ مَا هُوَ آتٍ قَرِيبٌ، وَإِنَّمَا الْبَعِيدُ مَا لَيْسَ بِآتٍ، أَلَا إِنَّمَا الشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ، وَالسَّعِيدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهِ، أَلَا إِنَّ قِتَالَ الْمُؤْمِنِ كُفْرٌ، وَسِبَابُهُ فُسُوقٌ، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ، أَلَا وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ لَا يَصْلُحُ بِالْجِدِّ، وَلَا بِالْهَزْلِ، وَلَا يَعِدُ الرَّجُلُ صَبِيَّهُ، ثُمَّ لَا يَفِي لَهُ، فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارَ، وَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ يُقَالُ لِلصَّادِقِ: صَدَقَ وَبَرَّ، وَيُقَالُ لِلْكَاذِبِ: كَذَبَ وَفَجَرَ، أَلَا وَإِنَّ الْعَبْدَ يَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس دو ہی چیزیں ہیں، ایک کلام اور دوسری چیز طریقہ، تو سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام (قرآن مجید) ہے، اور سب سے بہتر طریقہ (سنت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سنو! تم اپنے آپ کو دین میں نئی چیزوں سے بچانا، اس لیے کہ دین میں سب سے بری چیز «محدثات» (نئی چیزیں) ہیں، اور ہر «محدث» (نئی چیز) بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ سنو! کہیں شیطان تمہارے دلوں میں زیادہ زندہ رہنے اور جینے کا وسوسہ نہ ڈال دے، اور تمہارے دل سخت ہو جائیں ۱؎۔ خبردار! آنے والی چیز قریب ہے ۲؎، دور تو وہ چیز ہے جو آنے والی نہیں۔ خبردار! بدبخت تو وہی ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں بدبخت لکھ دیا گیا، اور نیک بخت وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرے۔ آگاہ رہو! مومن سے جنگ و جدال اور لڑائی جھگڑا کرنا کفر ہے، اور اسے گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرے ۳؎۔ سنو! تم اپنے آپ کو جھوٹ سے بچانا، اس لیے کہ جھوٹ سنجیدگی یا ہنسی مذاق (مزاح) میں کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے ۴؎، کوئی شخص اپنے بچے سے ایسا وعدہ نہ کرے جسے پورا نہ کرے ۵؎، جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے، اور سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے، اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، چنانچہ سچے آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے سچ کہا اور نیک و کار ہوا، اور جھوٹے آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا اور گناہ گار ہوا۔ سنو! بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کذاب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9524، ومصباح الزجاجہ: 17) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (عبید بن میمون مجہول الحال راوی ہیں، اس لئے یہ سند ضعیف ہے، اور یہ سیاق بھی کہیں اورموجود نہیں ہے، لیکن حدیث کے فقرات اور متابعات وشواہد کی وجہ سے صحیح ہیں، نیز ملاحظہ ہو: فتح الباری: 10/511 و 13/ 252، و صحیح البخاری: 6094، ومسلم: 2606-2647، وابوداود: 4989، والترمذی: 972، والموطا/ الکلام: 16، ومسند احمد: 1/384 - 405، والدارمی: 2757)

وضاحت: ۱؎: یعنی شیطان تمہیں دھوکا نہ دے کہ ابھی تمہاری زندگی بہت باقی ہے، دنیا میں عیش و عشرت کر لو، دنیا کے مزے لے لو، آخرت کی فکر پھر کر لینا، کیونکہ اس سے آدمی کا دل سخت ہو جاتا ہے، اور زاد آخرت کے حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے۔ ۲؎: آنے والی چیز یعنی موت یا قیامت۔ ۳؎: بلا وجہ ترک تعلق جائز نہیں اور اگر کوئی معقول وجہ ہے تو تین دن کی تنبیہ کافی ہے، اور اگر ترک تعلق کا سبب فسق و فجور ہے تو جب تک وہ توبہ نہ کرلے اس وقت تک نہ ملے۔ ۴؎: اس سے مطلقاً جھوٹ کی حرمت ثابت ہوتی ہے، خواہ ظرافت ہو یا عدم ظرافت۔ ۵؎: اس میں اولاد سے بھی وعدہ میں جھوٹ نہ بولنے کی ہدایت ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث46  
´بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس دو ہی چیزیں ہیں، ایک کلام اور دوسری چیز طریقہ، تو سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام (قرآن مجید) ہے، اور سب سے بہتر طریقہ (سنت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سنو! تم اپنے آپ کو دین میں نئی چیزوں سے بچانا، اس لیے کہ دین میں سب سے بری چیز «محدثات» (نئی چیزیں) ہیں، اور ہر «محدث» (نئی چیز) بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ سنو! کہیں شیطان تمہارے دلوں میں زیادہ زندہ رہنے اور جینے کا وسوسہ نہ ڈال دے، اور تمہارے دل سخت ہو جائیں ۱؎۔ خبرد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 46]
اردو حاشہ:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم اس کے اکثر جملے صحیح حدیثوں میں بھی آئے ہیں، اس لیے وہ صحیح ہیں، جہاں جہاں وہ روایات آئیں گی، وہاں ان سے متعلقہ فوائد بھی ذکر کر دیے جائیں گے۔
إن شاءاللہ.
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 46