سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم -- رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
14. بَابُ : فَضْلِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
باب: عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب۔
حدیث نمبر: 113
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ:" وَدِدْتُ أَنَّ عِنْدِي بَعْضَ أَصْحَابِي"، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ؟ فَسَكَتَ، قُلْنَا: أَلَا نَدْعُو لَكَ عُمَرَ؟ فَسَكَتَ، قُلْنَا: أَلَا نَدْعُو لَكَ عُثْمَانَ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، فَجَاءَ عُثْمَانُ فَخَلَا بِهِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُهُ، وَوَجْهُ عُثْمَانَ يَتَغَيَّر"، قَالَ قَيْسٌ: فَحَدَّثَنِي أَبُو سَهْلَةَ مَوْلَى عُثْمَانَ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالَ يَوْمَ الدَّارِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا فَأَنَا صَائِرٌ إِلَيْهِ، وَقَالَ عَلِيٌّ فِي حَدِيثِهِ:" وَأَنَا صَابِرٌ عَلَيْهِ، قَالَ قَيْسٌ: فَكَانُوا يُرَوْنَهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: میری خواہش یہ ہے کہ میرے پاس میرے صحابہ میں سے کوئی ہوتا، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، ہم نے عرض کیا: کیا ہم عمر کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، ہم نے عرض کیا: کیا ہم عثمان کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تو وہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے تنہائی میں باتیں کرنے لگے، اور عثمان رضی اللہ عنہ کا چہرہ بدلتا رہا۔ قیس کہتے ہیں: مجھ سے عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام ابوسہلۃ نے بیان کیا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جس دن ان پر حملہ کیا گیا کہا: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جو عہد لیا تھا میں اسی کی طرف جا رہا ہوں۔ علی بن محمد نے اپنی حدیث میں: «وأنا صابر عليه»  کہا ہے، یعنی: میں اس پر صبر کرنے والا ہوں۔ قیس بن ابی حازم کہتے ہیں: اس کے بعد سب لوگوں کا خیال تھا کہ اس گفتگو سے یہی دن مراد تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17569، ومصباح الزجاجة: 47)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/المناقب 19 (3711)، مسند احمد (1/58، 69، 5/290، 6/ 214)، مقتصراً علی ما رواہ قیس عن أبي سہلة فقط (صحیح)» ‏‏‏‏ (نیز ملاحظہ ہو: تعلیق الشہری علی الحدیث فی مصباح الزجاجة: 46)

وضاحت: ۱؎: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے دن کو یوم الدار سے یاد رکھا، ظالموں نے کئی دن محاصرہ کے بعد آپ کو بھوکا پیاسا شہید کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس کی پیش گوئی فرما دی تھی، اور تنہائی کی گفتگو کا حال کسی کو معلوم نہ تھا، آپ کی شہادت کے بعد معلوم ہوا، رضی اللہ عنہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث113  
´عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: میری خواہش یہ ہے کہ میرے پاس میرے صحابہ میں سے کوئی ہوتا، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، ہم نے عرض کیا: کیا ہم عمر کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، ہم نے عرض کیا: کیا ہم عثمان کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تو وہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے تنہائی میں باتیں کرنے لگے، اور عثمان رضی اللہ عنہ کا چہرہ بدلتا رہا۔ قیس کہتے ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 113]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی مقرب اور ہم راز تھے۔

(2)
وعدے سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عثمان ؓ کو وہی وصیت ہے کہ مفسدین کے غلط مطالبات کے سامنے مت جھکنا اور صبرواستقامت کا مظاہرہ کرنا۔

(3)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اطاعت رسول کا جذبہ بے مثال ہے کہ اپنی جان دینا قبول فرمالیا، لیکن اہل باطل کے سامنے نہیں جھکے اور اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کا یہ حال ہے کہ باغیوں کے خلاف فوجی ایکشن سے صرف اس لیے پرہیز کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں خون ریزی نہ ہو۔

(4)
آنے والے واقعات کی پیشگی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 113