سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة) -- (ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
39. بَابُ : فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ
باب: علماء کے فضائل و مناقب اور طلب علم کی ترغیب و تشویق۔
حدیث نمبر: 227
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ صَخْرٍ ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هَذَا، لَمْ يَأْتِهِ إِلَّا لِخَيْرٍ يَتَعَلَّمُهُ، أَوْ يُعَلِّمُهُ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَنْ جَاءَ لِغَيْرِ ذَلِكَ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يَنْظُرُ إِلَى مَتَاعِ غَيْرِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر (علم دین) سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے، اور جو اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے آئے تو وہ اس شخص کے درجہ میں ہے جس کی نظر دوسروں کی متاع پر لگی ہوتی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12956، ومصباح الزجاجة: 85)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/350، 418، 526) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مسجد نبوی میں علم دین حاصل کرنے کی غرض سے جانے والا مجاہد کے درجہ میں ہے، اور اسی وجہ سے دوسری مساجد اور دینی درسگاہوں میں علم دین حاصل کرنے والا بھی فضیلت کا مستحق ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث227  
´علماء کے فضائل و مناقب اور طلب علم کی ترغیب و تشویق۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر (علم دین) سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے، اور جو اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے آئے تو وہ اس شخص کے درجہ میں ہے جس کی نظر دوسروں کی متاع پر لگی ہوتی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 227]
اردو حاشہ:
(1)
مسجد کی تعمیر کا مقصد جہاں اللہ وَحدَہُ لَا شَرِیک کی عبادت ہے، وہیں اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ دین کی نشرواشاعت کا مرکز اور علم سیکھنے سکھانے کا ادارہ ہے۔
مسجد نبوی بھی علم کا ایک عظیم مرکز تھی، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم کتاب و حکمت کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے اور تربیت و تزکیہ نفس کا بھی، اس لیے جب کوئی مسلمان مسجد میں آتا ہے تو اس کی نیت انہی بلند مقاصد کے حصول کی ہونی چاہیے، تبھی وہ مسجد کے بابرکت ماحول سے صحیح استفادہ کر سکے گا۔

(2)
مسجد میں غیر ضرروی باتیں اور لڑائی جھگڑے مسجد کے ادب کے منافی ہیں، جن سے مسجد کا تقدس متاثر ہوتا ہے چنانچہ ایسی حرکتیں کرنے والا، نہ صرف مسجد کی برکات سے محروم رہتا ہے بلکہ گناہ گار بھی شمار ہوتا ہے۔

(3)
علوم دینیہ کا سلسلہ درس و تدریس بھی ایک قسم کا جہاد ہے کیونکہ قتال فی سبیل اللہ کا مقصد لوگوں کو کفر کی گمراہی سے نکال کر اسلام کے نور سے مستفید کرنا ہے۔
چنانچہ اگر علم و تعلیم کے مراکز موجود نہیں ہوں گے تو غیر مسلموں اور نو مسلموں کو اسلام کی تعلیم دینا مشکل ہو جائے گا اور جہاد کا اصل مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔

(4)
جو شخص مسجد میں نہ عبادت و ذکر الہی کے لیے آیا، نہ علم سیکھنے سکھانے کے لیے، اس نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا، جس طرح کوئی شخص بازار میں جا کر نہ کچھ خریدتا ہے، نہ بیچتا ہے، اسے کوئی دنیوی منافع حاصل نہیں ہوتا، بازار میں جو سامان پڑا ہے وہ اس کا نہیں، محض اسے دیکھ لینے سے اس کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔
وہ بازار سے کوئی بھی دنیوی فائدہ حاصل کیے بغیر لوٹ آتا ہے۔
اسی طرح مسجد میں بے مقصد جا کر بیٹھ رہنے والا آدمی دینی فوائد سے محروم رہتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 227