سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة) -- (ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
45. بَابُ : الاِنْتِفَاعِ بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ بِهِ
باب: علم سے نفع اٹھانے اور اس پر عمل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 257
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ النَّصْرِيِّ ، عَنْ نَهْشَلٍ ، عَنْ الضَّحَّاكِ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ صَانُوا الْعِلْمَ وَوَضَعُوهُ عِنْدَ أَهْلِهِ لَسَادُوا بِهِ أَهْلَ زَمَانِهِمْ، وَلَكِنَّهُمْ بَذَلُوهُ لِأَهْلِ الدُّنْيَا لِيَنَالُوا بِهِ مِنْ دُنْيَاهُمْ فَهَانُوا عَلَيْهِمْ، سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ آخِرَتِهِ كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ، وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا، لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا اگر اہل علم علم کی حفاظت کرتے، اور اس کو اس کے اہل ہی کے پاس رکھتے تو وہ اپنے زمانہ والوں کے سردار ہوتے، لیکن ان لوگوں نے دنیا طلبی کے لیے اہل دنیا پر علم کو نچھاور کیا، تو ان کی نگاہوں میں ذلیل ہو گئے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے اپنی تمام تر سوچوں کو ایک سوچ یعنی آخرت کی سوچ بنا لیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی غموں کے لیے کافی ہو گا، اور جس کی تمام تر سوچیں دنیاوی احوال میں پریشان رہیں، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہو جائے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9169، ومصباح الزجاجة: 105) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس سند میں نہشل متروک ہے راوی، مناکیر روایت کرتا ہے، اس لئے حدیث کا پہلا ٹکڑا ضعیف ہے، لیکن حدیث کا دوسرا ٹکڑا: «من جعل الهموم» شواہد کی وجہ سے حسن ہے، جو اسی سند سے مؤلف کے یہاں کتاب الزہد (4106) میں آ رہا ہے، نیز ملاحظہ ہو: كتاب الزهد لوكيع بن الجراح، تحقیق دکتور عبد الرحمن الفریوائی)

وضاحت: ۱؎: یعنی اس حالت میں اللہ تعالیٰ اس سے اپنی مدد اٹھا لے گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 263  
´علماء کے لیے غور و فکر کی کچھ احادیث`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ صَانُوا الْعِلْمَ وَوَضَعُوهُ عِنْدَ أَهْلِهِ لَسَادُوا بِهِ أَهْلَ زَمَانِهِمْ وَلَكِنَّهُمْ بَذَلُوهُ لِأَهْلِ الدُّنْيَا لِيَنَالُوا بِهِ مِنْ دُنْيَاهُمْ فَهَانُوا عَلَيْهِمْ سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ آخِرَتِهِ كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ - [88] - وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر علم والے اپنے علم کی حفاظت کریں اور اس کو اہل علم ہی کے پاس رکھیں یعنی علم کے قدر دانوں کو سکھلائیں تو اپنے زمانے کے سردار بن جائیں لیکن انہوں نے علم کو دنیا داروں پر خرچ کیا یعنی دنیا داروں کے لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعے سے دنیا داروں کی دولت حاصل کر لیں۔ پس اسی لیے وہ دنیا داروں کی نگاہوں میں ذلیل ہو گے۔ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جس شخص نے اپنے مقصدوں میں سے صرف ایک مقصد یعنی ہی آخرت کے مقصد کو اختیار کر لیا اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی مقاصد کو پورا کر دیتا ہے اور جس شخص کے دنیاوی بہت سے مقاصد مختلف ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرے گا۔ خواہ کسی جنگل میں یعنی دنیا کی کسی حالت میں ہلاک ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے اوپر نظر رحمت نہیں کرے گا اور نہ اس کے دنیاوی حالت کو درست کرے گا۔اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 263]

تحقیق الحدیث:
اس کی سند سخت ضعیف و مردود ہے اور یہ روایت ضعیف ہے۔
اس میں وجہ ضعف دو ہیں:
➊ نہشل بن سعید شدید مجروح اور ساقط العدالت راوی ہے۔
◄ اس کے بارے میں امام ابوداود الطیالسی اور امام اسحاق بن راہویہ دونوں نے کہا: «كذاب» [كتاب الجرح والتعديل 8؍496 وسنده صحيح]
◄ حاکم نیشاپوری نے کہا:
«روي عن الضحاك بن مزاحم الموضوعات . . .»
اس نے ضحاک بن مزاحم سے موضوعات (موضوع روایتیں) بیان کی ہیں۔ [المدخل الي الصحيح ص218 ت209]
یہ روایت بھی ضحاک سے ہے، لہٰذا موضوع ہے۔
➋ معاویہ بن سلمہ النصری مجہول الحال ہے اور بعض غیر موثق روایتوں میں اس کی توثیق بھی مروی ہے۔ [اخلاق العلماء للآجري ص92] میں یہی روایت «شعيب بن ايوب: أخبرنا عبدالله بن نمير: أخبرنا معاوية النصري . إلخ» کی سند سے موجود ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ نہشل اس روایت کے ساتھ منفرد نہیں ہے، اس روایت کے سارے شواہد ضعیف ہیں۔

تنبیہ:
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من كانت الدنيا همه فرق الله عليه أمره وجعل فقره بين عينيه ولم يأته من الدنيا إلا ما كتب له، ومن كانت الآخرة نيته جمع الله له أمره وجعل غناه فى قلبه وأتته الدنيا وهى راغمة .»
جسے (صرف) دنیا کا ہی غم ہو، اللہ اس کے معاملات منتشر کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں پر غربت طاری کر دیتا ہے، اسے دنیا میں سے وہی ملتا ہے جو اس کی قسمت میں ہے۔ اور جسے آخرت کا غم ہو تو اللہ اس کے معاملات اکٹھے کر دیتا ہے اور اس کے دل میں بےنیازی پیدا کر دیتا ہے، دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔ [سنن ابن ماجه: 4105 وسنده صحيح وحسنه الترمذي: 2656 وصححه ابن حبان: 72 والبوصيري فى زوائد ابن ماجه]
↰ یہ صحیح حدیث سابقہ روایت سے بےنیاز کر دیتی ہے۔

فائدہ:
احوال الدنیا سے پہلے «في» کا لفظ مشکوٰۃ کے نسخوں سے گر گیا ہے، لہٰذا اس کا اضافہ اصل سنن ابن ماجہ سے کیا گیا ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 263   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث257  
´علم سے نفع اٹھانے اور اس پر عمل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا اگر اہل علم علم کی حفاظت کرتے، اور اس کو اس کے اہل ہی کے پاس رکھتے تو وہ اپنے زمانہ والوں کے سردار ہوتے، لیکن ان لوگوں نے دنیا طلبی کے لیے اہل دنیا پر علم کو نچھاور کیا، تو ان کی نگاہوں میں ذلیل ہو گئے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے اپنی تمام تر سوچوں کو ایک سوچ یعنی آخرت کی سوچ بنا لیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی غموں کے لیے کافی ہو گا، اور جس کی تمام تر سوچیں دنیاوی احوال میں پریشان رہیں، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہو جائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 257]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو دنیا کے معاملات میں بھی آخرت کے فائدہ اور نقصان کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
مومن آخرت کے فائدہ کے لیے دنیا کا نقصان برداشت کر لیتا ہے اس لیے اس کو اس قربانی پر غم اور افسوس نہیں ہوتا بلکہ خوشی ہوتی ہے، اس طرح وہ دنیا کے تفکرات سے گویا محفوظ ہو جاتا ہے۔

(2)
آخرت کو فراموش کرنے کا برا نتیجہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور وہ یہ کہ انسان ہمیشہ فکر و غم میں مبتلا رہتا ہے، اس سے جو چیز چھن جاتی ہے اس پر سخت غمگین ہوتا ہے جبکہ مومن کو کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے کیونکہ اسے آخرت میں بہتر جزا ملنے کی امید ہوتی ہے۔

(3)
بعض محققین نے اس روایت کوحسن قرار دیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 257   
قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: حَدَّثَنَا حَازِمُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ النَّصْرِيِّ، وَكَانَ ثِقَةً، ثُمَّ ذَكَرَ الْحَدِيثَ نَحْوَهُ بِإِسْنَادِهِ.
ابن نمیر نے معاویہ نصری ثقہ سے اس اسناد سے اسی طرح حدیث روایت کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏(مصباح الزجاجة: 105، ط، مصریہ، وموطا امام مالک/ الجامعة الإسلامیة)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن