صحيح البخاري
كِتَاب جَزَاءِ الصَّيْدِ -- کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
26. بَابُ حَجِّ النِّسَاءِ:
باب: عورتوں کا حج کرنا۔
حدیث نمبر: 1864
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ قَزَعَةَ مَوْلَى زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ، وَقَدْ غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، قَالَ: أَرْبَعٌ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: يُحَدِّثُهُنَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْجَبْنَنِي وَآنَقْنَنِي،" أَنْ لَا تُسَافِرَ امْرَأَةٌ مَسِيرَةَ يَوْمَيْنِ لَيْسَ مَعَهَا زَوْجُهَا، أَوْ ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا صَوْمَ يَوْمَيْنِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالملک بن عمر نے، ان سے زیاد کے غلام قزعہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے چار باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں یا یہ کہ وہ یہ چار باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے اور کہتے تھے کہ یہ باتیں مجھے انتہائی پسند ہیں یہ کہ کوئی عورت دو دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی ذو رحم محرم نہ ہو، نہ عیدالفطر اور عید الاضحی کے روزے رکھے جائیں نہ عصر کی نماز کے بعد غروب ہونے کے پہلے اور نہ صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کوئی نماز پڑھی جائے اور نہ تین مساجد کے سوا کسی کے لیے کجاوے باندھے جائیں مسجد الحرام، میری مسجد اور مسجد الاقصیٰ۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 578  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے تین مسجدوں کے (کسی کے لئے) کجاوے نہ باندھو۔ (یعنی) مسجد الحرام، میری اس مسجد اور مسجد اقصی (کے علاوہ)۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 578]
578 لغوی تشریح:
«لَا تُشَدُّ الرِّجَالُ» مجہول کا صیغہ ہے اور اس میں احتمال ہے کہ یہ فعل نفی ہو یا فعل نہی۔
«اِلرِّجَال» «رحل» کی جمع ہے اور وہ اونٹ کے کجاوے کو کہتے ہیں، جیسے گھوڑے کی کاٹھی ہوتی ہے۔ اور کجاوے باندھنا استعمال کر کے سفر سے کنایہ کیا گیا ہے کیونکہ عام طور پر سفر کے لیے ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور معنی یہ ہیں کہ حصول برکت و فضیلت کی نیت سے سفر نہ کیا جائے۔ اور ایک روایت میں «لَا تَشُدُّوا» یعنی نہی کا صیغہ جمع مذکر ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان تین مقامات کے علاوہ کسی بھی مقام کو باعث برکت سمجھ کر نیک اور صالح لوگوں کی زیارت کرنا، خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ یا وہاں نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کرنا درست نہیں۔
➋ تبرک کی تخصیص اس لیے ہے کہ ان تین مساجد کی طرف سفر اسی مقصد کے لیے ہوتا ہے، اس لیے ان کے علاوہ دوسرے مقامات کی طرف سفر کی ممانعت بھی اسی مقصد سے مختص ہے، البتہ دوسرے اغراض و مقاصد کے لیے سفر کرنا جائز ہے بلکہ بسا اوقات واجب ہے جس کی تفصیل الصارم المنکی وغیرہ مطول کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
➋ یہ حدیث ان تینوں مقامات کے شرف و فضل پر دلالت کرتی ہے اور اسے یہاں لانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان مقامات میں اعتکاف کیا جائے، وہاں عبادت اور ذکر و تلاوت کی مقدور بھر کوشش کی جائے۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 578   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1169  
´عورت کے تنہا سفر کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ تین دن ۱؎ یا اس سے زائد کا سفر کرے اور اس کے ساتھ اس کا باپ یا اس کا بھائی یا اس کا شوہر یا اس کا بیٹا یا اس کا کوئی محرم نہ ہو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1169]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں تین دن کا ذکرہے،
بعض روایتوں میں دو اوربعض میں ایک دن کا ذکرہے،
اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ ایک یا دو یا تین دن کا اعتبارنہیں اصل اعتبارسفرکا ہے کہ اتنی مسافت ہو جس کو سفرکہا جا سکے اس میں تنہاعورت کے لیے سفرکرنا جائزنہیں۔

2؎:
محرم سے مراد شوہرکے علاوہ عورت کے وہ قریبی رشتہ دارہیں جن سے اس کا کبھی نکاح نہیں ہوسکتا،
جیسے باپ،
بیٹا،
بھائی،
بھتیجا اور بھانجا اوراسی طرح رضاعی باپ،
بیٹا،
بھائی،
بھتیجا اور بھانجا ہیں،
داماد بھی انہیں میں ہے،
ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اس کا سفر کرنا جائز ہے،
ان کے علاوہ کسی کے ساتھ سفرپرنہیں جا سکتی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1169   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1864  
1864. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شریک ہوئے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں۔۔۔ یا(راوی نےکہا کہ)وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے تھے۔۔۔ جو مجھے بہت اچھی اور بھلی معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ کوئی عورت دو دن کا سفر محرم یا خاوند کے بغیر نہ کرے، نیز عید الفطر اور عید الاضحیٰ کا روزہ نہ رکھا جائے، اس کے علاوہ نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور آخری بات کہ تین مسجدوں، مسجد حرام، میری مسجد اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی دوسری مسجد کی طرف رخت سفر نہ باندھا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1864]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد عورتوں کے حج کی مشروعیت بیان کرنا نہیں کیونکہ اس کے متعلق کوئی شک نہیں کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح حج کی مکلف ہیں، بلکہ امام بخاری یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عورتوں کے حج کے لیے آداب و شرائط مردوں جیسے ہیں یا ان کے لیے کوئی زائد امر بھی مطلوب ہے، چنانچہ عورت پر وجوب حج کے لیے محرم کا ہونا شرط ہے جیسا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے لیکن میرا نام فلاں، فلاں غزوے کے لیے لکھ دیا گیا ہے تو آپ نے فرمایا:
جاؤ، اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3272(1341) (2)
اس سلسلے میں امام بخاری نے پانچ احادیث پیش کی ہیں جن کی ترتیب وار مختصر تشریح حسب ذیل ہے:
٭ پہلی حدیث حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں امہات المؤمنین کے حج کرنے سے متعلق ہے۔
دراصل حضرت عمر ؓ امہات المومنین ؓ کے بارے میں متردد تھے کہ انہیں حج پر جانے کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے کیونکہ ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ) (الأحزاب33: 33)
تم اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔
" رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات سے فرمایا:
حج یہی ہے۔
اس کے بعد تم نے گھروں میں بیٹھ رہنا ہے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1722)
چنانچہ آپ نے اپنے دور خلافت کے آخر میں امہات المومنین کو حج کی اجازت دی اور خود بھی ساتھ روانہ ہوئے۔
ان کی خدمت کے لیے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو مامور فرمایا۔
اونٹوں کے قافلے کے آگے حضرت عثمان اور پیچھے حضرت عبدالرحمٰن ؓ تھے۔
حضرت عثمان ؓ وقفے وقفے سے یہ اعلان کرتے تھے:
خبردار! یہ امہات المومنین کا قافلہ ہے۔
کوئی آدمی ان کے نزدیک نہ آئے اور نہ ان کی طرف دیکھنے کی جراءت ہی کرے۔
حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں بھی انہوں نے حج کا فریضہ سرانجام دیا۔
٭ دوسری حدیث میں بھی عورتوں کو حج کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان کے حق میں اسے افضل الجہاد قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ عورتیں جہاد میں شریک ہوتی تھیں جیسا کہ حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ جہاد میں جاتیں اور زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
٭ تیسری حدیث میں وہ شرط بیان کی گئی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے کہ محرم کے بغیر عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں بلکہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے جیسا کہ دارقطنی نے اسے بیان کیا ہے (سنن الدارقطني، الحج: 222/2)
اور ابو عوانہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
امام احمد ؒ نے اس حدیث کے عموم کے پیش نظر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ محرم کے بغیر عورت پر حج فرض نہیں۔
چونکہ ازواج مطہرات کے تمام اہل ایمان روحانی بیٹے ہیں، اس لیے ان کا حج اپنے روحانی محارم کے ساتھ ہی تھا۔
یہ واقعہ ان حضرات کی دلیل نہیں بن سکتا جو محرم کے بغیر عورتوں کے حج کو جائز قرار دیتے ہیں۔
٭ چوتھی حدیث کا مدلول یہ ہے کہ جب کوئی عورت فریضۂ حج ادا کرنے کا ارادہ کرے تو اس کا شوہر اس کے ساتھ حج کرے۔
یہ جہاد سے بہتر ہے۔
یاد رہے کہ یہ اس وقت ہے جب جہاد فرض نہ ہو۔
٭ پانچویں حدیث کے مطابق عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو دن کا سفر بھی محرم کے بغیر طے کرے۔
اس سے زیادہ مدت سفر بطریق اولیٰ جائز نہیں، یعنی عورت کوئی بھی سفر محرم یا شوہر کے بغیر نہیں کر سکتی، خواہ سفر حج ہو یا اس کے علاوہ۔
الغرض عورت کے لیے حج کرنے سے متعلق ایک زائد شرط ہے کہ اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے۔
جو عورتیں کسی اجنبی کو محرم بنا کر حج پر جاتی ہیں، وہ دو چند گناہ کا ارتکاب کرتی ہیں:
ایک تو حدیث کی مخالفت، دوسرے جھوٹ کی لعنت، اس لیے ایسا کرنا ثواب کے بجائے گناہ کمانا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1864