سنن ابن ماجه
أبواب التيمم -- کتاب: تیمم کے احکام و مسائل
99. بَابُ : مَنْ قَالَ لاَ يَنَامُ الْجُنُبُ حَتَّى يَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلاَةِ
باب: جنبی کے نماز جیسا وضو کئے بغیر نہ سونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 586
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّهُ كَانَ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ بِاللَّيْلِ فَيُرِيدُ أَنْ يَنَامَ،" فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ يَنَامَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں رات میں جنابت لاحق ہوتی اور سونا چاہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حکم دیتے کہ وہ وضو کر کے سوئیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4101، ومصباح الزجاجة: 232)، مسند احمد (2/75، 3/55) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 94  
´اسلام کے آغاز میں حکم تھا کہ جماع سے اس وقت غسل فرض ہوتا ہے جب انزال ہو`
«. . . عن ابي سعيد الخدري رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏الماء من الماء . . .»
. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی کا استعمال خروج پانی سے ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 94]

لغوی تشریح:
«اَلْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ» اس میں «مِنْ» تعلیل کا ہے۔ اور بعض روایات میں «إِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ» کلمۂ حصر کے ساتھ ہے۔ پہلے «الماء» سے معروف پانی، یعنی نہانا اور دوسرے «الماء» سے منی مراد ہے۔ معنی یہ ہیں کہ پانی کے ساتھ غسل اس وقت واجب ہو گا جب انزال ہو اور منی خارج ہو جائے۔ کوئی آدمی جب اپنی بیوی کے ساتھ لیٹ جائے اور وہ عمل کرے جس سے منی کا خروج ہو تو غسل ضروری ہو گا۔ اگر اتنے عمل کے باوجود منی کا خروج نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوتا۔ اس میں جماع اور احتلام دونوں شامل ہیں۔ روایات میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ حکم جماع کے بارے میں وارد ہے۔ اس کا مقتضی یہ ہے کہ اگر ایک آدمی جماع تو کرتا ہے مگر انزال نہیں ہوتا تو اس پر غسل واجب نہیں۔ اس کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں حکم اسی طرح تھا مگر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اور دیگر روایات سے یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ اب محض جماع سے غسل واجب ہو جاتا ہے، خواہ انزال ہوا ہو یا نہ ہو۔ اگرچہ احتلام کے بارے میں یہ حدیث وارد نہیں ہوئی مگر الفاظ چونکہ عام ہیں، اس لیے اس کو بھی یہ شامل ہے اور وہ یہ کہ احتلام میں جب تک انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ہوتا اور اس کے خلاف بھی کچھ وارد نہیں ہوا بلکہ اس کی تائید موجود ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ جمہور علماء کے نزدیک یہ حدیث احتلام کے بارے میں ہے، جماع سے اس کا تعلق نہیں۔
➋ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام کے آغاز میں یہ حکم بھی تھا کہ جماع سے اس وقت غسل فرض ہوتا ہے جب انزال ہو لیکن کچھ مدت بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا۔
➌ قاضی ابن العربی نے کہا ہے کہ اس مسئلے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ مرد و عورت کے اعضائے مخصوص ایک دوسرے سے مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے، خواہ انزال نہ ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 94   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 180  
´شرمگاہوں کے ملنے سے ہی غسل واجب ہو جاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ`
«. . . حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ذَكْوَانَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَلَّنَا أَعْجَلْنَاكَ، فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أُعْجِلْتَ أَوْ قُحِطْتَ فَعَلَيْكَ الْوُضُوءُ " تَابَعَهُ وَهْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَلَمْ يَقُلْ غُنْدَرٌ، وَيَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ الْوُضُوءُ . . . .»
. . . وہ ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کو بلایا۔ وہ آئے تو ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید ہم نے تمہیں جلدی میں ڈال دیا۔ انہوں نے کہا، جی ہاں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی جلدی (کا کام) آ پڑے یا تمہیں انزال نہ ہو تو تم پر وضو ہے (غسل ضروری نہیں) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الْوُضُوءَ إِلاَّ مِنَ الْمَخْرَجَيْنِ، مِنَ الْقُبُلِ وَالدُّبُرِ:: 180]

تخريج الحديث:
[196۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 34 باب من لم ير الوضوء 180، مسلم 345، بيهقي 165/1]
لغوی توضیح:
«قُحِطْتَ» یعنی تمہیں انزال نہیں ہوا۔
«فَعَلَيْكَ الْوُضُوْء» تو پھر تم پر وضو ہے۔ یعنی اگر کوئی ہم بستری کرے اور انزال یعنی منی کا خروج نہ ہو تو پھر غسل نہیں بلکہ صرف وضو کافی ہے۔ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں یہ منسوخ ہو گیا اور اب ہمیشہ کے لیے یہ حکم ہے کہ مجرد شرمگاہوں کے ملنے سے ہی غسل واجب ہو جاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ۔ جیسا کہ آئندہ باب بھی اسی کے بیان میں ہے اور ایک صحیح حدیث میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بھی یہ وضاحت فرمائی ہے۔ [صحيح: صحيح ابن ماجة 493، أبوداود 215، ترمذي 110، ابن ماجة 609]
امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر امت کا اتفاق نقل فرمایا ہے۔ نیز سعودی مجلس افتاء کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ [شرح المهذب للنووي 36/4، فتاويٰ اللجنة الدائمة 293/5]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 196