سنن ابن ماجه
كتاب الصلاة -- کتاب: صلاۃ کے احکام و مسائل
7. بَابُ : وَقْتِ صَلاَةِ الْمَغْرِبِ
باب: نماز مغرب کا وقت۔
حدیث نمبر: 687
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ ، يَقُولُ:" كُنَّا نُصَلِّي الْمَغْرِبَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْصَرِفُ أَحَدُنَا، وَإِنَّهُ لَيَنْظُرُ إِلَى مَوَاقِعِ نَبْلِهِ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مغرب کی نماز پڑھتے، پھر ہم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ کر واپس ہوتا، اور وہ اپنے تیر گرنے کے مقام کو دیکھ لیتا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المواقیت 18 (559)، صحیح مسلم/المساجد 38 (637)، (تحفة الأشراف: 3572)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلا ة 6 (416)، سنن النسائی/المواقیت 13 (521)، مسند احمد (3/370، 4/141) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی سورج ڈوبتے ہی نماز پڑھ لیا کرتے تھے، بلاوجہ احتیاط کے نام پر تاخیر نہیں کرتے تھے، اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 131  
´نماز مغرب میں زیادہ تاخیر جائز نہیں`
«. . . وعن رافع بن خديج رضي الله عنه قال: كنا نصلي المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فينصرف احدنا وإنه ليبصر مواقع نبله . . .»
. . . سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نماز مغرب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے پھر ہم میں سے کوئی نماز سے فارغ ہو کر واپس ہوتا (تو اتنی روشنی ابھی باقی ہوتی تھی) کہ تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 131]

لغوی تشریح:
«مَوَاقِعَ نَبْلِه» «مَوَاقِع»، موقع کی جمع ہے، مراد ہے تیروں کے گرنے کی جگہیں۔ اور «نَبْل» کے معنی ہیں: تیر۔ نون پر فتحہ اور با ساکن ہے۔ انہی لفظوں سے اس کا واحد استعمال نہیں ہوتا۔

فائدہ:
نماز مغرب میں زیادہ تاخیر جائز نہیں۔ اس کے ادا کرنے میں جلدی ہی بہتر ہے جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ) ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ کم عمری کی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے۔ غزوہ احد اور بعد کے غزوات میں برابر شریک رہے۔ 73 یا 74 ہجری میں 86 برس کی عمر میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 131   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث687  
´نماز مغرب کا وقت۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مغرب کی نماز پڑھتے، پھر ہم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ کر واپس ہوتا، اور وہ اپنے تیر گرنے کے مقام کو دیکھ لیتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 687]
اردو حاشہ:
(1)
تیر گرنے کی جگہ دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ نظر اتنی دور تک کام کرتی تھی کہ کوئی شخص تیر چلائے تو اندھیرا کم ہونے کی وجہ سے اسے اپنا تیر زمین میں گرتا ہوا نظر آئے۔

(2)
اتنی جلدی فارغ ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سورج غروب ہوتے ہی نماز مغرب ادا کی جاتی تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نماز مختصر ہوتی تھی اس میں دوسری نمازوں کی طرح طویل قراءت نہیں ہوتی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 687   
حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح