سنن ابن ماجه
كتاب الأذان والسنة فيه -- کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
3. بَابُ : السُّنَّةِ فِي الأَذَانِ
باب: اذان کی سنتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 715
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسَدِيُّ ، عَنْ أَبِي إِسْرَائِيلَ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ بِلَالٍ ، قَالَ:" أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُثَوِّبَ فِي الْفَجْرِ، وَنَهَانِي أَنْ أُثَوِّبَ فِي الْعِشَاءِ".
بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں فجر کی اذان میں «تثويب»  ۱؎ کہوں، اور آپ نے عشاء کی اذان میں  «تثويب»  سے مجھے منع فرمایا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 31 (198)، (تحفة الأشراف: 2042)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/14، 148) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو اسرائیل ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء: 235)

وضاحت: ۱؎: «تثويب» کہتے ہیں اعلان کے بعد اعلان کرنے یا اطلاع دینے کو، اور مراد اس سے  «الصلاة خير من النوم» ہے۔ ۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ  «الصلاة خير من النوم» کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی اذان میں جاری کیا، اور شیعہ جو کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کلمہ کو اذان میں بڑھایا یہ ان کا افتراء ہے، عمر رضی اللہ عنہ کا یہ منصب نہیں تھا کہ وہ اذان جیسی عبادت میں اپنی رائے سے گھٹاتے بڑھاتے، یہ منصب تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہے، پس بعض روایتوں میں جو یہ آیا ہے کہ مؤذن عمر رضی اللہ عنہ کو جگانے کے لئے آیا، اور اس نے کہا:  «الصلاة خير من النوم»  عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کلمے کو اپنی اذان میں مقرر کرو، اس سے یہ نہیں نکلتا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کلمے کو ایجاد کیا، بلکہ احتمال ہے کہ لوگوں نے یہ کلمہ فجر کی اذان میں کہنا چھوڑ دیا ہو گا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سنت کے جاری کرنے کے لئے تنبیہ کی، یا مطلب یہ ہو گا کہ یہ کلمہ اذان میں کہا کرو، اذان کے باہر اس کے کہنے کا کیا موقع، بہرحال اتباع میں عمر رضی اللہ عنہ سب صحابہ سے زیادہ سخت تھے، اور بدعت کے بڑے دشمن تھے، ان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ انہوں نے دین میں کوئی بات کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر اپنی طرف سے بڑھائی ہو، جب عمر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب حاصل نہ ہوا حالانکہ دوسری حدیث میں ابوبکر اور عمر کی پیروی کا حکم ہے، اور ایک حدیث میں ہے کہ میری سنت کو لازم کر لو، اور خلفائے راشدین کی سنت کو، تو کسی صحابی، یا امام، یا مجتہد، یا پیر، یا ولی، یا فقیر، یا غوث، یا قطب کو یہ منصب کیوں کر حاصل ہو گا، کہ وہ دین میں بغیر دلیل کے کوئی اضافہ کرے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث715  
´اذان کی سنتوں کا بیان۔`
بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں فجر کی اذان میں «تثويب» ۱؎ کہوں، اور آپ نے عشاء کی اذان میں «تثويب» سے مجھے منع فرمایا ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 715]
اردو حاشہ:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے اور دیگر محققین نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے تاہم مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلہ مصنف ابن ابي شيبة اور سنن الكبري للبهيقي میں صحیح سند سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ فجر کی اذان میں (حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ)
کے بعد (اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ)
دو مرتبہ کہنا سنت ہے۔ (مصنف ابن أبی شیبة: 1؍208 و سنن الکبری للبہیقي: 1/423)
نیز اس روایت میں تثويب سے مراد (اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ)
كہنا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند ا لإمام أحمد بن حنبل: 39/337’338)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 715