سنن ابن ماجه
كتاب الأذان والسنة فيه -- کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
5. بَابُ : فَضْلِ الأَذَانِ وَثَوَابِ الْمُؤَذِّنِينَ
باب: اذان کی فضیلت اور مؤذن کے ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 728
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ أَذَّنَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَكُتِبَ لَهُ بِتَأْذِينِهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ سِتُّونَ حَسَنَةً، وَلِكُلِّ إِقَامَةٍ ثَلَاثُونَ حَسَنَةً".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے بارہ سال اذان دی، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی، اور اس کے لیے ہر روز کی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں، اور ہر اقامت پہ تیس نیکیاں لکھ دی گئیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7788، ومصباح الزجاجة: 270) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اوپر حدیث میں سات برس کا ذکر ہے، اور اس میں بارہ برس کا یہ تعارض نہیں ہے، کیونکہ سات برس کی اذان دینے میں جب جہنم سے برأت حاصل ہو گئی، تو بارہ برس کی اذان دینے میں جنت ضرور حاصل ہو گی، ان شاء اللہ اور بعضوں نے کہا سات برس خلوص نیت کے ساتھ کافی ہیں، اور بارہ برس ہر طرح کافی ہیں، اگرچہ نیت میں صفائی کامل نہ ہو، واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث728  
´اذان کی فضیلت اور مؤذن کے ثواب کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے بارہ سال اذان دی، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی، اور اس کے لیے ہر روز کی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں، اور ہر اقامت پہ تیس نیکیاں لکھ دی گئیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 728]
اردو حاشہ:
فائدہ:
محض اللہ کی رضا کے لیے پابندی کے ساتھ اذان دینا ایک مشکل کام ہے جسے وہی شخص انجام دے سکتا ہے جس کے دل میں ایمان موجود ہو اور مسلسل بارہ سال تک یہ ذمہ داری نبھانا تو بہت ہی حوصلہ کا کام ہے جسے اللہ تعالی کی خاص توفیق کے بغیر انجام دینا ممکن نہیں، اس لیے یہ فریضہ ادا کرنے والے کے لیے یہ عظیم خوشخبری دی گئی ہے۔
یہ روایت بعض کے نزدیک صحیح ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 728