سنن ابن ماجه
كتاب الأذان والسنة فيه -- کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
6. بَابُ : إِفْرَادِ الإِقَامَةِ
باب: اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 732
حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنِي مُعَمَّرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، قَالَ:" رَأَيْتُ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثْنَى مَثْنَى، وَيُقِيمُ وَاحِدَةً".
ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اذان دیتے دیکھا، وہ اذان کے کلمات دو دو بار کہہ رہے تھے، اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12024، ومصباح الزجاجة: 272) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں معمر بن محمد ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: ان احادیث سے طحاوی اور ابن جوزی کی یہ روایت باطل ہو گئی کہ بلال رضی اللہ عنہ اقامت کے کلمات دو دو بار کہتے رہے یہاں تک کہ فوت ہو گئے، یعنی ایک ایک بار اقامت کے کلمات انہوں نے کہے، کیونکہ یہ شہادت ہے نفی پر اور یہ جائز ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے کبھی اقامت کے کلمات ایک ایک بار بھی کہے ہوں، اور کبھی دو دو بار اور اس راوی نے ایک ایک بار کہنا نہ سنا ہو، اور اس صورت میں دونوں طرح کی روایتوں میں توفیق و تطبیق ہو جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث732  
´اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہنے کا بیان۔`
ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اذان دیتے دیکھا، وہ اذان کے کلمات دو دو بار کہہ رہے تھے، اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 732]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اذان کی طرح اقامت اکہری اور دہری دونوں طرح ثابت ہے۔

(2)
اگر اذان اکہری ہو تو اقامت بھی اکہری ہوگی جیسا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی روایات میں ہے جبکہ (قَدْقَامَتِ الصَّلٰوةِ)
 کے الفاظ کہے جائیں گے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں حضرت بلال کو یہی حکم تھا کہ وہ اذان کے کلمات دوباراور اقامت کے الفاظ ایک ایک بار کہیں۔
اور یہی افضل وبہتر ہے۔
لیکن اگر اذان دہری کہی جائے تو اقامت بھی دہری کہی جائے گی۔
جیسا کہ ابومحذورہ ؓ کی روایت میں ہے لہٰذا اکہری اذان کے ساتھ دہری اقامت کہنا درست نہیں۔ (والله اعلم)
  ديكهے:
 (صحيح البخاري، الأذان،   باب بدء الأذان، حديث: 606، 603)
وسنن ابي داؤد، الصلاة، باب في الاقامة، حديث: 511، 510)

(3)
یہ روایت صحیح روایات کے ہم معنی ہے، اس لیے بعض حضرات نے اس کو صحیح کہا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 732