سنن ابن ماجه
كتاب المساجد والجماعات -- کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل
1. بَابُ : مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا
باب: اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنانے والے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 738
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَشِيطٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ النَّوْفَلِيِّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ أَوْ أَصْغَرَ، بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے پرندے کے گھونسلے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹی مسجد اللہ کے لیے بنوائی، تو اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2421، ومصباح الزجاجة: 276) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: حدیث میں «قطاۃ» کا لفظ ہے، وہ ایک چڑیا ہے، جو دور دراز جنگل میں جا کر گھونسلا بناتی ہے، اور اس کا گھونسلا نہایت چھوٹا ہوتا ہے، اور یہ مبالغہ ہے مسجد کے چھوٹے ہونے میں، ورنہ گھونسلے کے برابر تو کوئی مسجد بنانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ کم سے کم مسجد میں تین آدمیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہوتی ہے، غرض یہ ہے کہ چھوٹی بڑی مسجد پر منحصر نہیں خالص نیت سے اگر کوئی نہایت مختصر مسجد بھی بنا دے گا، تب بھی اللہ تعالیٰ اس کو اجر دے گا، اور جنت میں اس کے لئے مکان بنایا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث738  
´اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنانے والے کی فضیلت۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے پرندے کے گھونسلے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹی مسجد اللہ کے لیے بنوائی، تو اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 738]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  قطات کبوتر کی طرح کا ایک چھوٹا سا پرندہ ہے جو زمین ہی پر تھوری سی جگہ بنا کروہاں انڈے دے دیتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بشارت صرف بڑی اور عظیم مسجد تعمیر کرنے والے کے لیے نہیں بلکہ جو شخص مسجد کی تعمیر میں معمولی سا حصہ بھی لینا چاہے، اور وہ اسی قدر حصہ لے سکتا ہے اسے بھی پورا ثواب ملے گا۔

(2)
اللہ تعالی کے ہاں اعمال کی ظاہری مقدار کی بجائے اس خلوص اور کوشش کی اہمیت ہے جو کوئی شخص کسی نیکی کے لیے کرتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 738