سنن ابن ماجه
كتاب المساجد والجماعات -- کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل
14. بَابُ : الْمَشْيِ إِلَى الصَّلاَةِ
باب: نماز کے لیے چل کر مسجد جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 777
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْهَجَرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ غَدًا مُسْلِمًا فَلْيُحَافِظْ عَلَى هَؤُلَاءِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ فَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى، وَإِنَّ اللَّهَ شَرَعَ لِنَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَنَ الْهُدَى، وَلَعَمْرِي لَوْ أَنَّ كُلَّكُمْ صَلَّى فِي بَيْتِهِ لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ، وَلَوْ تَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ، وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ الرَّجُلَ يُهَادَى بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ حَتَّى يَدْخُلَ فِي الصَّفِّ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ يَتَطَهَّرُ فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ فَيَعْمِدُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيُصَلِّي فِيهِ، فَمَا يَخْطُو خَطْوَةً إِلَّا رَفَعَ اللَّهُ لَهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو خوشی ہو کہ وہ کل اللہ تعالیٰ سے اسلام کی حالت میں ملاقات کرے تو جب اور جہاں اذان دی جائے ان پانچوں نمازوں کی پابندی کرے، کیونکہ یہ ہدایت کی راہیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لیے ہدایت کے راستے مقرر کئے ہیں، قسم ہے اگر تم میں سے ہر ایک اپنے گھر میں نماز پڑھ لے، تو تم نے اپنے نبی کا راستہ چھوڑ دیا، اور جب تم نے اپنے نبی کا راستہ چھوڑ دیا تو گمراہ ہو گئے، ہم یقینی طور پر دیکھتے تھے کہ نماز سے پیچھے صرف وہی رہتا جو کھلا منافق ہوتا، اور واقعی طور پر (عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں) ایک شخص دو آدمیوں پر ٹیک دے کر مسجد میں لایا جاتا، اور وہ صف میں شامل ہوتا، اور جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور مسجد کا ارادہ کر کے نکلے، پھر اس حالت میں نماز پڑھے، تو وہ جو قدم بھی چلے گا ہر قدم پر اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا، اور ایک گناہ مٹا دے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9495)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 44 (654)، سنن ابی داود/الصلاة 47 (550)، سنن النسائی/الإمامة 50 (850)، مسند احمد (1/382، 414، 415) (صحیح) (سند میں ابراہیم بن مسلم لین الحدیث ہیں، اور صحیح مسلم میں '' ولعمری'' کے بغیر یہ حدیث ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 559، والإرواء: 488)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نماز باجماعت فرض ہے، جمہور علماء اس کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کے چھوڑ دینے کو گمراہی قرار دیا، ابوداود کی روایت میں ہے کہ تم کافر ہو جاؤ گے، تارک جماعت کو منافق بتلایا اگر وہ اس کا عادی ہے، ورنہ ایک یا دو بار کے ترک سے آدمی منافق نہیں ہوتا، ہاں نفاق پیدا ہوتا ہے، کبھی کبھی مسلمان بھی جماعت سے پیچھے رہ جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث777  
´نماز کے لیے چل کر مسجد جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو خوشی ہو کہ وہ کل اللہ تعالیٰ سے اسلام کی حالت میں ملاقات کرے تو جب اور جہاں اذان دی جائے ان پانچوں نمازوں کی پابندی کرے، کیونکہ یہ ہدایت کی راہیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لیے ہدایت کے راستے مقرر کئے ہیں، قسم ہے اگر تم میں سے ہر ایک اپنے گھر میں نماز پڑھ لے، تو تم نے اپنے نبی کا راستہ چھوڑ دیا، اور جب تم نے اپنے نبی کا راستہ چھوڑ دیا تو گمراہ ہو گئے، ہم یقینی طور پر دیکھتے تھے کہ نماز سے پیچھے صرف وہی رہتا جو کھلا منافق ہوتا، اور واقعی طور ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 777]
اردو حاشہ:
(1)
یہ حدیث موقوف ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نہیں بلکہ ایک صحابی (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ)
کے متعدد فرامین ہیں لیکن انہوں نے جو باتیں فرمائی ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہ کر ہی سیکھی ہیں۔
خصوصاً آخری مسئلہ گزشتہ احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک کے طور پر بھی بیان ہو چکا ہے۔

(2)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی نظر میں صحیح مسلمان وہ ہے جو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا عادی ہو۔
ورنہ مرنے کے بعد جب وہ اللہ تعالی کے حضور پیش ہوگا تو مسلم کی حیثیت سے پیش نہیں ہوگا۔

(3) (سُنَنُ الهُدَي)
ہدایت کے کام سُنَن سُنَّةُ كی جمع ہے اس کا مطلب وہ راستہ جس پر بہت لوگ چلتے ہوں۔
اس لیے رسم ورداج کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔
نماز باجماعت مسلمانوں کی علامت اور شعار ہےاور مسجد کا وجود ثابت کرتا ہے۔
کہ اس بستی میں مسلمان رہائش پذیر ہیں۔
اگر نماز باجماعت کا رواج ختم ہوجائے تو مسلم ار غیر مسلم آبادی میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔

(4)
چونکہ نمازباجماعت اسلام کی علامت ہے، اس لیے مومن اس میں کوتاہی نہیں کرسکتا۔
صحابۂ کرام ؓ کی نظر میں باجماعت نماز کی اہمیت سب بڑھ کر تھی۔
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنر وں کو تحریری طور پر جو ہدایت جاری کی تھیں ان میں فرمایا تھا:
(إِنَّ أَهَمَّ أَمْرَكُمْ عِنْدِي الصَّلَاة۔
۔
۔
۔)

میری نظر میں تمھارا سب سے اہم کام نماز ہے۔
جو شخص نماز کی محافظت کرتا ہے وہ اپنے دین کو محفوظ کرلیتا ہے۔
اور جو شخص اسے ضائع کردیتا ہے وہ دوسرے فرائض میں زیادہ کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ (موطا للإمام مالک، باب وقوت الصلوۃ، حدیث: 6)

(5)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا نماز باجماعت میں شریک ہونے کے لیے اہتمام بھی ثابت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک کسی شدید عذر کے بغیر نماز باجماعت سے پیچھے رہنا جائز نہ تھا۔
اس لیے جو بیمار آدمی چل کر مسجد میں نہیں آ سکتا تھا وہ دوسروں کے سہارے مسجد میں آتا تھا لیکن گھر میں نماز نہیں پڑھتا تھا۔

(6)
اس میں سنت کی پیروی کی ترغیب ہے کیونکہ سنت سے گریز گمراہی کا باعث ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 777