صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
11. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلاَلَ فَصُومُوا وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جب تم (رمضان کا) چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو۔
حدیث نمبر: 1911
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ، وَكَانَتِ انْفَكَّتْ رِجْلُهُ، فَأَقَامَ فِي مَشْرُبَةٍ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ نَزَلَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آلَيْتَ شَهْرًا؟ فَقَالَ: إِنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ".
ہم سے عبدالعزیزبن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے جدا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالاخانہ میں انتیس دن قیام کیا تھا، پھر وہاں سے اترے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1911  
1911. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک کے لیے اپنی بیویوں سے ترک تعلق کی قسم اٹھائی جبکہ آپ کے پاؤں کو موچ آگئی تھی۔ آپ اپنے بالا خانہ میں انتیس دن تک اقامت گزیں رہے۔ پھر آپ نیچے اترآئے تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے تو مہینہ بھر کی قسم اٹھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1911]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا عنوان صحیح مسلم میں مروی ایک حدیث کے الفاظ ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم (رمضان کا)
چاند دیکھو تو روزہ رکھو۔
۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2514(1081)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت متعدد احادیث بیان کی ہیں جو شک کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے بہترین ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔
سب سے پہلے وہ معلق روایت ذکر کی ہے جس میں صراحت کے ساتھ شک کے دن روزہ رکھنے کی نفی بیان ہوئی ہے اور اس دن روزہ رکھنا ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی قرار پاتی ہے۔
اس کے بعد حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کے دو طرق بیان کیے ہیں۔
ایک میں اندازہ پورا کرنے کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ اس سے مراد تیس دن پورے کرنا ہیں، پھر ہاتھ سے اشارہ کر کے مہینے کے دن بتائے کہ بعض اوقات مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے، پھر حدیث ابو ہریرہ میں تیس دن کی صراحت ہے، پھر حضرت ام سلمہ ؓ کی حدیث سے مہینے کے انتیس دن ثابت کیے۔
(2)
یاد رہے کہ یوم شک سے مراد شعبان کی تیسویں کا روزہ رکھنا ہے جبکہ کسی وجہ سے 29 ویں تاریخ کو چاند نظر نہ آئے۔
(فتح الباري: 154/4)
ہمارے ہاں تجدد پسند طبقہ وحدت عید کو بہت اچھال رہا ہے، یعنی مکہ مکرمہ کی رؤیت کو بنیاد قرار دے کر عالم اسلام میں ایک ہی دن عید منائی جائے، حالانکہ یہ فکر صریح احادیث کے خلاف ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ام فضل بنت حارث ؓ نے حضرت کریب کو کسی کام کے لیے حضرت معاویہ ؓ کے پاس شام کے علاقے میں بھیجا۔
وہاں انہیں جمعہ کی رات رمضان کا چاند نظر آ گیا۔
وہ مہینے کے آخر میں مدینے واپس آئے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے چاند دیکھنے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عباس نے فرمایا:
ہم نے تو ہفتے کی رات چاند دیکھا تھا، لہذا ہم اس وقت تک روزے رکھتے رہیں گے جب تک کہ تیس پورے نہ کر لیں یا ہم خود چاند نہ دیکھ لیں۔
حضرت کریب نے عرض کی:
آپ کے لیے معاویہ ؓ کا چاند دیکھ لینا اور روزہ رکھ لینا کافی نہیں؟ حضرت ابن عباس ؓ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا:
ہم ایسا نہیں کر سکتے۔
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2528(1087)
بہرحال مطالع کا اختلاف رؤیت ہلال پر اثر انداز ہوتا ہے اور جن علاقوں میں مطالع کا اتحاد ہو وہاں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہروں کے لیے کافی ہو گی بصورت دیگر ہر شہر کے لیے الگ رؤیت کا اعتبار ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1911