سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة -- کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
49. بَابُ : الإِمَامِ يُخَفِّفُ الصَّلاَةَ إِذَا حَدَثَ أَمْرٌ
باب: دوران نماز حادثہ پیش آ جانے پر نماز ہلکی کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 991
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، وَبِشْرُ بْنُ بَكْرٍ ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ كَرَاهِيَةَ أَنْ أشُقَّ عَلَى أُمِّهِ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس کو لمبی کروں، اتنے میں بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو اس ڈر سے نماز ہلکی کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں پریشان نہ ہو جائے۔‏‏‏‏

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 65 (707)، 163 (868)، سنن ابی داود/الصلاة 126 (789)، سنن النسائی/الإمامة 35 (826)، (تحفة الأشراف: 12110)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/305) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رحم و کرم بے انتہا تھا، نماز ایسی عبادت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادنیٰ ادنیٰ عورتوں تک کا خیال رکھتے، اور یہ منظور نہ ہوتا کہ کسی امتی پر سختی گزرے، ایسا مہربان نبی جو ہم کو ماں باپ سے بھی زیادہ چاہتا ہے، اور کس امت کو ملا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 789  
´کسی حادثہ کے پیش آ جانے پر نماز ہلکی کر دینے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اسے لمبی کروں پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو اسے مختصر کر دیتا ہوں، اس اندیشہ سے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 789]
789۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز کو طویل کر کے خشوع و خضوع سے پڑھنا مستحب ہے، مگر امام کے لئے شرط ہے کہ اپنے مقتدیوں میں سے کمزور افراد کا خیال رکھے۔
➋ نماز میں کسی مستحب عمل کی نیت کر کے اسے پورا کرنا لازمی نہیں ہے، نیت میں اسی طرح کی تبدیلی جائز ہے۔ مثلاًً کسی نے قیام لمبا کرنے کی نیت کی تو اسے مختصر کر دیا، کھڑے ہو کر نفل پڑھنے کی نیت کی تو ضروری نہیں کہ کھڑے ہو کر مکمل کرے۔ بیٹھ کر بھی مکمل کر سکتا ہے۔
➌ عورتیں بھی جماعت میں شامل ہوں تو بہتر ہے اور چھوٹے بچوں کو بھی مسجد میں لایا جا سکتا ہے۔
➍ نماز کو ہلکا کرنے سے مراد یہ ہے کہ قرأت مختصر اور دیگر اذکار کو مناسب حد تک کم کر دیا جائے نہ کہ ارکان نماز کو جلدی جلدی اداکیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 789   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 826  
´امام نماز کتنی ہلکی پڑھے؟`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور بچوں کا رونا سنتا ہوں تو اپنی نماز ہلکی کر دیتا ہوں، اس ڈر سے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 826]
826 ۔ اردو حاشیہ:
➊ فرض نماز ہر ایک نے باجماعت پڑھنی ہوتی ہے لوگ ہر قسم کے ہوتے ہیں ان میں معذور بھی ہو سکتے ہیں فطرتاً کمزور بھی مریض وغیرہ بھی بوڑھے بھی بچے بھی بچوں والی عورتیں بھی کام کاج کرنے والے لوگ بھی اور مصروفیت والے بھی لہٰذا امام کو چاہیے کہ فرض نماز ہلکی پڑھائے۔ اس قدر کہ مندرجہ بالا نمازی بھی آسانی سے نماز ادا کرسکیں۔ دل تنگ نہ ہوں ورنہ نماز کا مقصد فوت ہو جائے گا البتہ نفل نماز جو ہر ایک پر ضروری نہیں بلکہ نشاط پر موقوف ہے اسے مناسب لمبا کیا جا سکتا ہے مگر اس قدر نہیں کہ نمازی نماز سے بیزار ہو جائے۔ تراویح اگرچہ فرض نہیں مگر امت مسلمہ کا شعار ہے لہٰذا اس میں بھی تخفیف ضروری ہے۔
➋ اکیلا آدمی اپنی چستی اور نشاط کے مطابق نماز لمبی کر سکتا ہے۔
➌ کسی مقتدی کی تکلیف کے مدنظر یا کسی حادثے کی بنا پر نماز مختصر کی جا سکتی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر ہوا۔ اسی طرح نمازیوں کے مفاد میں نماز لمبی بھی کی جا سکتی ہے مثلا: کثیر لوگ وضو کر رہے ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی وجہ سے پہلی رکعت لمبی پڑھایا کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 826