Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
25. بَابُ اغْتِسَالِ الصَّائِمِ:
باب: روزہ دار کا غسل کرنا جائز ہے۔
وَبَلَّ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثَوْبًا، فَأَلْقَاهُ عَلَيْهِ وَهُوَ صَائِمٌ، وَدَخَلَ الشَّعْبِيُّ الْحَمَّامَ وَهُوَ صَائِمٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا بَأْسَ أَنْ يَتَطَعَّمَ الْقِدْرَ أَوِ الشَّيْءَ، وَقَالَ الْحَسَنُ: لَا بَأْسَ بِالْمَضْمَضَةِ وَالتَّبَرُّدِ لِلصَّائِمِ"، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلْيُصْبِحْ دَهِينًا مُتَرَجِّلًا، وَقَالَ أَنَسٌ: إِنَّ لِي أَبْزَنَ أَتَقَحَّمُ فِيهِ وَأَنَا صَائِمٌ، وَيُذْكَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ اسْتَاكَ وَهُوَ صَائِمٌ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: يَسْتَاكُ أَوَّلَ النَّهَارِ وَآخِرَهُ وَلَا يَبْلَعُ رِيقَهُ، وَقَالَ عَطَاءٌ: إِنِ ازْدَرَدَ رِيقَهُ لَا أَقُولُ يُفْطِرُ، وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: لَا بَأْسَ بِالسِّوَاكِ الرَّطْبِ، قِيلَ: لَهُ طَعْمٌ، قَالَ: وَالْمَاءُ لَهُ طَعْمٌ وَأَنْتَ تُمَضْمِضُ بِهِ، وَلَمْ يَرَ أَنَسٌ وَالْحَسَنُ، وَإِبْرَاهِيمُ بِالْكُحْلِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا.
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک کپڑا تر کر کے اپنے جسم میں ڈالا حالانکہ وہ روزے سے تھے اور شعبی روزے سے تھے لیکن حمام میں (غسل کے لیے) گئے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہانڈی یا کسی چیز کا مزہ معلوم کرنے میں (زبان پر رکھ کر) کوئی حرج نہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ روزہ دار کے لیے کلی کرنے اور ٹھنڈا حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کسی کو روزہ رکھنا ہو تو وہ صبح کو اس طرح اٹھے کہ تیل لگا ہوا ہو اور کنگھا کیا ہو اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا ایک «ابزن» (حوض پتھر کا بنا ہوا) ہے جس میں میں روزے سے ہونے کے باوجود غوطے مارتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ میں مسواک کی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دن میں صبح اور شام (ہر وقت) مسواک کیا کرتے اور روزہ دار تھوک نہ نگلے اور عطاء رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر تھوک نکل گیا تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا اور ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا کہ تر مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کسی نے کہا کہ اس میں جو ایک مزا ہوتا ہے اس پر آپ نے کہا کیا پانی میں مزا نہیں ہوتا؟ حالانکہ اس سے کلی کرتے ہو۔ انس، حسن اور ابراہیم نے کہا کہ روزہ دار کے لیے سرمہ لگانا درست ہے۔

صحیح بخاری کی حدیث نمبر Q1929 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،صحیح بخاری Q1929  
روزے کی حالت میں ہانڈی وغیرہ سے چکھنا؟
امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
«وقال ابن عباس: لا بأس أن يتطعم القدر أو الشئ»
اور ابن عباس (رضی اللہ عنہما) نے فرمایا: ہانڈی یا کسی چیز کو چکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
[صحيح بخاري، كتاب الصوم باب اغتسال الصائم ح 1930، سے پهلے]
یہ روایت «شريك عن سليمان عن عكرمة عن ابن عباس» کی سند سے درج ذیل کتابوں میں ہے:
➊ مصنف ابن ابی شیبہ (3/ 47 ح 9278) «عن شريك»
➋ مسند علی بن الجعد (2406) «من حديث شريك و عنه على بن الجعد»
➌ السنن الکبریٰ للبیہقی (4/ 261) «من حديث على بن الجعد عن شريك»
➍ تغلیق التعلیق (3/ 152) «للحافظ ابن حجر رحمه الله من طريق على بن الجعد»
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:
1: شریک بن عبداللہ القاضی مدلس ہیں اور سند عن سے ہے۔
شریک کی تدلیس کے لئے دیکھئے: [نصب الرايه 3/ 234 المحلي 8/ 263، 10/ 333]
اور طبقات المدلسین لابن حجر [2/ 56] «وهو من المرتبة الثالثة فى القول الراجح .»
2: سلیمان بن مہران الاعمش مدلس تھے اور سند عن سے ہے۔
اعمش کی تدلیس کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 66 ص 7
٭ اس روایت کی دوسری سند میں جابر بن یزید الجعفی ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 3/ 47 ح 9277]
جابر جعفی سخت ضعیف اور گمراہ شخص تھا۔ دیکھئے: تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال اور تقریب التہذیب وغیرہ، لہٰذا یہ سند باطل ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت اپنی دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔
فائدہ: عر وہ بن الزبیر رحمہ اللہ (تابعی) روزے کی حالت میں منٰی میں شہد چکھ لیتے تھے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 3/ 47 ح 9280 وسنده حسن]
ثابت ہوا کہ اگر شدید شرعی عذر ہو، مثلاًً کسی عورت کا شوہر سخت مزاج ہو تو اس کے لئے روزے کی حالت میں ہانڈی وغیرہ چکھنے میں کوئی حرج نہیں اور اسی طرح خریدتے وقت بھی اس چیز کو چکھا جا سکتا ہے جس میں یہ احتمال ہو کہ بیچنے والا دھوکا دے رہا ہے، یا یہ خوف ہو کہ دھوکانہ دے دے تو بھی ایسی چیز کو معمولی سا چکھ لیناجائز ہے، لیکن نہ چکھے تو بہتر ہے۔ «والله اعلم»
تنبیہ: اسے ضرورت کے وقت چکھنے کے بعد تھوک دینا چاہئے۔
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی وعلمی مقالات (جلد 4 صفحہ 553 اور 554) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
   تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 553