صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
34. بَابُ إِذَا صَامَ أَيَّامًا مِنْ رَمَضَانَ ثُمَّ سَافَرَ:
باب: جب رمضان میں کچھ روزے رکھ کر کوئی سفر کرے۔
حدیث نمبر: 1944
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ الْكَدِيدَ، أَفْطَرَ فَأَفْطَرَ النَّاسُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَالْكَدِيدُ مَاءٌ بَيْنَ عُسْفَانَ، وَقُدَيْدٍ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فتح مکہ کے موقع پر) مکہ کی طرف رمضان میں چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے تھے لیکن جب کدید پہنچے تو روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ عسفان اور قدید کے درمیان کدید ایک تالاب ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 248  
´سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے`
«. . . عن ابن عباس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة عام الفتح فى رمضان فصام حتى بلغ الكديد ثم افطر فافطر الناس معه، وكانوا ياخذون بالاحدث فالاحدث من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم . . .»
. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف رمضان میں روانہ ہوئے تو آپ نے کدید (ایک مقام) تک روزے رکھے پھر آپ نے افطار کیا (روزے نہ رکھے) تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ افطار کیا اور لوگ (صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تازہ بہ تازہ حکم پر عمل کرتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 248]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1944، من حديث مالك به مختصراً ورواه الدارمي 1715، من حديث مالك به، ومسلم 1112، من حديث الزهري به]

تفقه:
➊ سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے اگر سفر میں سخت مشقت ہے تو افطار افضل ہے اور نہ آسانی کی حالت میں روز ہ بہتر ہے۔ اس مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن یہی قول راجح ہے۔ والله اعلم
➋ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ قصر کرتے رہے اور میں (نماز) پوری پڑھتی رہی، آپ افطار کر تے رہے اور میں روزے رکھتی رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! تم نے اچھا کیا ہے۔ [سنن النسائي: 121/3 ح 1457، وسنده صحيح]
● اس روایت پر حافظ ابن تیمیہ کی جرح مردود ہے۔
➌ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں روزہ نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 295/1 ح 663 و سنده صحيح]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں روزے رکھتی تھیں۔ [ابن ابي شيبه 16/3 ح 8980 سنده صحيح]
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن شئت فصم وإن شئت فأفطر» اگر تم چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو افطار کرو۔ [صحيح بخاري:1943، صحيح مسلم:1121، الاتحاف الباسم:465]

تنبیہ: التحاف الباسم سے یہی کتاب مراد ہے الموطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم جس کے متن میں امام عبدالرحمٰن بن القاسم رحمہ اللہ کے بیان کردہ الموطأ کا نسخہ درج ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 50   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1661  
´سفر میں روزہ رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے، اور نہیں بھی رکھا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1661]
اردو حاشہ:
فائده:
جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے۔
اس میں مسافر کےلئے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے۔
خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ اور خواہ تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی۔
خواہ سفر میں بھوک پیاس لگتی ہے۔
یا نہ لگتی ہو۔
کیونکہ شریعت نے سفر میں نمازقصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلق اجازت دی ہے۔
اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ﴾  (البقرة: 184/2)
 تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہوتو وہ (رمضان کے علاوہ)
دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلے۔
علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو قبول کیا جائے جس طرح و ہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت ونافرمانی کا ارتکاب کیاجائے۔ (مسند أحمد: 108/2)
 البتہ اگر روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی روزہ رکھ لے تو ا س میں کوئی حرج نہیں اور اگر تکلیف ہوتو پھر روزہ رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1661   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2404  
´تاجر روزہ چھوڑ سکتا ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے یہاں تک کہ مقام عسفان پر پہنچے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پانی وغیرہ کا) برتن منگایا اور اسے اپنے منہ سے لگایا تاکہ آپ اسے لوگوں کو دکھا دیں (کہ میں روزے سے نہیں ہوں) اور یہ رمضان میں ہوا، اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ بھی رکھا ہے اور افطار بھی کیا ہے، تو جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2404]
فوائد ومسائل:
(1) یہ واقعہ فتح مکہ کے سفر کا ہے۔

(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے سفر میں صبح کو روزے کی نیت کی ہو تو شرعی عذر سے کسی وقت اگر وہ افطار کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2404   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1944  
1944. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ روزے سے تھے۔ جب مقام کدید پہنچے تو آپ نے وہاں روزہ چھوڑ دیا۔ تب لوگوں نے بھی روزہ افطار کردیا۔ ابو عبداللہ(امام بخاری) نے فرمایا: کدید، عسفان اور قدید کے درمیان ایک چشمے کانام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1944]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری نے یہ باب لاکر اس روایت کا ضعف بیان کیا جو حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جب کسی شخص پر رمضان کا چاند حالت اقامت میں آجائے تو پھر وہ سفر میں افطار نہیں کرسکتا، جمہور علماء اس کے خلا ف ہیں وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا قول مطلق ہے ﴿فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾ (البقرة: 184)
اور ابن عباس ؓ کی حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کدید میں پہنچ کر پھر روزہ نہیں رکھا حالانکہ آپ دسویں رمضان کو مدینہ سے روانہ ہوئے تھے اب اگرکوئی شخص اقامت میں روزہ کی نیت کرلے پھر دن کو کسی وقت سفر میں نکلے تو اس کو روزہ کھول ڈالنا درست ہے یا پورا کرنا چاہئے اس میں اختلاف ہے مگر ہمارے امام احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ یہ روزہ افطار کرنے کو درست جانتے ہیں، اور مزنی نے اس کے لیے اس حدیث سے حجت لی حالانکہ اس حدیث میں اس کی کوئی حجت نہیں کیوں کہ کدید مدینہ سے کئی منزل پر ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1944   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1944  
1944. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ روزے سے تھے۔ جب مقام کدید پہنچے تو آپ نے وہاں روزہ چھوڑ دیا۔ تب لوگوں نے بھی روزہ افطار کردیا۔ ابو عبداللہ(امام بخاری) نے فرمایا: کدید، عسفان اور قدید کے درمیان ایک چشمے کانام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1944]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان میں دو ٹوک الفاظ میں کوئی حکم نہیں بیان کیا گیا کیونکہ پیش کردہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی۔
(2)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ جس شخص کو دوران اقامت میں رمضان کا چاند نظر آ جائے اسے دوران سفر میں روزہ افطار کرنے کی اجازت نہیں۔
دلیل کے طور پر حضرت علی ؓ سے مروی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جس شخص کو حضر میں رمضان آ جائے، پھر وہ سفر کرے تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ (البقرة: 195: 2)
جو تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو، اسے چاہیے کہ روزہ رکھے۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے حدیث مذکور کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ دس رمضان کو فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو رمضان کا چاند مدینہ طیبہ میں نظر آیا تھا اور آپ نے چند روزے رکھنے کے بعد سفر کا آغاز کیا۔
اسی طرح بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اگر دوران حضر میں فجر طلوع ہو تو اس دن سفر کرنے کے بعد بھی روزہ ترک کرنا جائز نہیں جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے روزہ رکھنے کے بعد دوران سفر میں اسے افطار کیا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے کے بعد اگر سفر کا آغاز کیا جائے تو دوران سفر میں اسے پورا کرنا ضروری نہیں بلکہ اسے چھوڑا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 231/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1944