سنن ابن ماجه
كتاب الصيام -- کتاب: صیام کے احکام و مسائل
8. بَابُ : مَا جَاءَ فِي «الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ»
باب: مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 1658
حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" مَا صُمْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ أَكْثَرُ مِمَّا صُمْنَا ثَلَاثِينَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہ نسبت ۳۰ دن کے زیادہ تر انتیس دن کے روزے رکھے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14622، ومصباح الزجاجة: 602) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 2011)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1658  
´مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے اس کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہ نسبت ۳۰ دن کے زیادہ تر انتیس دن کے روزے رکھے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1658]
اردو حاشہ:
فوائدو مسائل:

(1)
روزے فرض ہونے کے بعد رسول اللہﷺ کی زندگی میں نو بار ماہ رمضان آیا کیونکہ روزے کی فرضیت 2 ہجری میں ہوئی اور 11 ھجری کا رمضان آنے سے پہلے ماہ ربیع الاول میں نبی کریم ﷺ رحلت فرماگئے۔
اس دوران میں کم از کم پانچ باررمضان کے انتیس روزے ہوئے۔

(2)
حدیث 1656اور 1657 میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تیس کا ہونا ضروری نہیں۔
کبھی انتیس کا ہوتا ہے کبھی تیس دن کا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1658