سنن ابن ماجه
كتاب الصيام -- کتاب: صیام کے احکام و مسائل
15. بَابُ : مَا جَاءَ فِيمَنْ أَفْطَرَ نَاسِيًا
باب: روزہ میں بھول کر کھا پی لے تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1674
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ:" أَفْطَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ غَيْمٍ، ثُمَّ طَلَعَتِ الشَّمْسُ"، قُلْتُ لِهِشَامٍ: أُمِرُوا بِالْقَضَاءِ، قَالَ: لَا بُدَّ مِنْ ذَلِكَ.
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دن بدلی میں روزہ افطار کر لیا، پھر سورج نکل آیا، ابواسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام سے کہا: پھر تو لوگوں کو روزے کی قضاء کا حکم دیا گیا ہو گا؟، انہوں نے کہا: یہ تو ضروری ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصوم 46 (1959)، سنن ابی داود/الصوم 23 (2359)، (تحفة الأشراف: 15749)، مسند احمد (6/346) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی قضا تو کرنا ضروری ہے ایسی حالت میں اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جب دھوکہ سے روزہ کھول ڈالے بعد میں معلوم ہو کہ دن باقی تھا اور سورج نہیں ڈوبا تھا تو قضا لازم آئے گی، لیکن کفارہ لازم نہ ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1674  
´روزہ میں بھول کر کھا پی لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دن بدلی میں روزہ افطار کر لیا، پھر سورج نکل آیا، ابواسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام سے کہا: پھر تو لوگوں کو روزے کی قضاء کا حکم دیا گیا ہو گا؟، انہوں نے کہا: یہ تو ضروری ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1674]
اردو حاشہ:
فائده:
حدیث میں مذکورہ صورت بھول کر کھانے پینے سے مختلف ہے۔
کیونکہ انھوں نے بھول کر نہیں کھایا پیا بلکہ ارادے سے اپنے خیال میں روزہ کھولا تھا۔
اگرچہ غلط فہمی کی بنا پر وقت سے پہلے کھول دیاتھا۔
اس غلط فہمی کی بنا پر وہ گناہ گار تو نہیں ہوئے لیکن روزہ یقیناً ناقص ہوگیا۔
ایسے روزے کی قضا کی بابت علماء میں اختلاف ہے۔
تاہم جمہور علماء کے نزدیک ایسی صورت میں افطار کیے ہوئے روزے کی قضا واجب ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (فتح الباری: 255/4)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1674   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2359  
´سورج ڈوبنے سے پہلے افطار کر لے اس کے حکم کا بیان۔`
اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ماہ رمضان میں ایک دن ہم نے بدلی میں روزہ کھول لیا اس کے بعد سورج نمودار ہو گیا۔ راوی ابواسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن عروہ سے سوال کیا کہ پھر تو لوگوں کو روزے کی قضاء کا حکم دیا گیا ہو گا؟ کہنے لگے: کیا اس کے بغیر بھی چارہ ہے؟۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2359]
فوائد ومسائل:
ایسے روزے کی قضا کی بابت علماء میں اختلاف ہے، تاہم جمہور علماء کے نزدیک ایسی صورت میں افطار کیے ہوئے روزے کی قضاء واجب ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے: فتح الباری: 4/255)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2359