صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
55. بَابُ حَقِّ الْجِسْمِ فِي الصَّوْمِ:
باب: روزے میں جسم کا حق۔
حدیث نمبر: 1975
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ،" أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ صُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ بِحَسْبِكَ أَنْ تَصُومَ كُلَّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنَّ لَكَ بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا، فَإِنَّ ذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ"، فَشَدَّدْتُ، فَشُدِّدَ عَلَيَّ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، قَالَ: فَصُمْ صِيَامَ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، وَلَا تَزِدْ عَلَيْهِ، قُلْتُ: وَمَا كَانَ صِيَامُ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام؟ قَالَ: نِصْفَ الدَّهْرِ، فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ، يَقُولُ بَعْدَ مَا كَبِرَ: يَا لَيْتَنِي قَبِلْتُ رُخْصَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو اوزاعی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبداللہ! کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم دن میں تو روزہ رکھتے ہو اور ساری رات نماز پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی صحیح ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا، کہ ایسا نہ کر، روزہ بھی رکھ اور بے روزہ کے بھی رہ۔ نماز بھی پڑھ اور سوؤ بھی۔ کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تم سے ملاقات کرنے والوں کا بھی تم پر حق ہے بس یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو، کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا اور اس طرح یہ ساری عمر کا روزہ ہو جائے گا، لیکن میں نے اپنے پر سختی چاہی تو مجھ پر سختی کر دی گئی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ! میں اپنے میں قوت پاتا ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھ اور اس سے آگے نہ بڑھ، میں نے پوچھا اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بے روزہ رہا کرتے تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ بعد میں جب ضعیف ہو گئے تو کہا کرتے تھے کاش! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی رخصت مان لیتا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 567  
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے`
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے (گویا) روزہ نہیں رکھا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ ہیں کہ نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 567]
567 لغوی تشریح:
«لَاصَامَ مَنْ صَامَ الَّابَدَ» اس سے ہمیشہ اور سال بھر روزہ رکھنا مراد ہے۔ اور ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے جس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔
«لَاصَامَ وَلَا اَفْطَرَ» یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے والے کا نہ روزہ ہے اور نہ افطار ہے۔ روزہ نہ ہونے کا مفہوم تو یہی ہے کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ اور نہ افطار کیا کا مفہوم یہ ہے کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں سے محروم رہا اور روزے میں جن چیزوں سے رکا جاتا ہے، اس نے ان چیزوں سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا کیونکہ وہ اپنے آپ کو روزے دار سمجھتا رہا۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا ناجائز اور حرام ہے اور باقی سارا سال روزے رکھ کر صرف عیدین اور ایام تشریق کے روزے نہ رکھنے سے یہ کراہت رفع نہیں ہو جاتی۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 567   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1975  
1975. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عبداللہ! کیا مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ آپ دن میں روزے سے ہوتے ہیں اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں اللہ کے رسول ﷺ! ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ایسا مت کیا کرو، روزہ رکھو افطار بھی کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کروکیونکہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے۔ تم پر تمہاری آنکھوں کا حق ہے اور تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے اور تم پر تمہارے مہمان کا بھی حق ہے۔ تجھے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھے کیونکہ تیرے لیے ہر نیک عمل کا دس گنا اجروثواب ہے۔ اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہیں۔ لیکن میں نے جسم پر سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں اپنے اندر ا س سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں!آپ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو اللہ کے نبی حضرت داود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1975]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں پچھلے مضمون کی مزید وضاحت ہے۔
پھر ان لوگوں کے لیے جو عبادت میں زیادہ سے زیادہ انہماک کے خواہش مند ہوں ان کے لیے داؤد ؑ کے روزے کو بطور مثال بیان فرمایا اور ترغیب دلائی کہ ایسے لوگوں کے لیے مناسب ہے کہ صوم داؤدی کی اقتداءکریں اور اس میانہ راوی سے ثواب عبادت حاصل کریں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1975   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1975  
1975. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عبداللہ! کیا مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ آپ دن میں روزے سے ہوتے ہیں اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں اللہ کے رسول ﷺ! ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ایسا مت کیا کرو، روزہ رکھو افطار بھی کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کروکیونکہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے۔ تم پر تمہاری آنکھوں کا حق ہے اور تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے اور تم پر تمہارے مہمان کا بھی حق ہے۔ تجھے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھے کیونکہ تیرے لیے ہر نیک عمل کا دس گنا اجروثواب ہے۔ اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہیں۔ لیکن میں نے جسم پر سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں اپنے اندر ا س سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں!آپ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو اللہ کے نبی حضرت داود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1975]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں نفلی عبادت کرتے وقت جسم کا حق بیان کیا گیا ہے۔
اس حق سے مراد واجب نہیں بلکہ رعایت و نرمی ہے، یعنی نفلی روزہ رکھتے وقت جسم کی رعایت کرنی چاہیے اور اس پر سختی نہ کی جائے تاکہ دیگر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے حضرت داود ؑ کے روزوں جیسے روزے رکھنے کی تلقین فرمائی، یعنی ایک دن روزہ رکھا جائے اور ایک دن چھوڑ دیا جائے لیکن حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے جس عبادت کا التزام کر رکھا تھا، بڑھاپے اور قوت میں کمی کے باعث اس میں کمی آنے لگی، لیکن اس التزام کو چھوڑنا پسند نہ کیا جسے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں خود پر لازم کر لیا تھا، لیکن کف افسوس ضرور ملتے کہ کاش! میں آپ کی عطا کردہ رخصت قبول کر لیتا تو آج مجھے اس قدر سختی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
دراصل صحابۂ کرام ؓ کے لیے وہ حالت چھوڑنا مشکل تھی جس پر رسول اللہ ﷺ سے جدا ہوئے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تھا:
"کاش! میں بھی حضرت سودہ ؓ کی طرح شب مزدلفہ سے اجازت مانگ لیتی تو اچھا ہوتا مگر اب اس حالت کو نہیں چھوڑ سکتی۔
(فتح الباري: 280/4) (2)
واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔
بڑھاپے کے وقت یہ پابندی دشوار ہوئی تو کہنے لگے:
کاش! میں نے آپ کی اجازت قبول کی ہوتی اور ایک مہینے کے تین روزے رکھنے کی عادت اختیار کرتا لیکن اب مجھ سے اتنے روزے نہیں رکھے جاتے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1975