سنن ابن ماجه
كتاب الصيام -- کتاب: صیام کے احکام و مسائل
58. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الاِعْتِكَافِ
باب: اعتکاف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1769
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ كُلَّ عَامٍ عَشْرَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا، وَكَانَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ عُرِضَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۱؎ اور ہر سال ایک بار قرآن کا دور آپ سے کرایا جاتا تھا، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال دو بار آپ سے دور کرایا گیا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الاعتکاف 17 (2044)، فضائل القرآن 7 (4998)، سنن ابی داود/الصوم 78 (2466)، سنن الترمذی/الصوم 71 (791)، (تحفة الأشراف: 12844)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/281، 336، 410)، سنن الدارمی/الصوم 55 (1820) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اعتکاف کے لغوی معنی روکنے اور بند کرنے کے ہیں، اور شرعی اصطلاح میں مسجد میں ایک خاص کیفیت کے ساتھ اپنے آپ کو روکنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔
۲؎: تاکہ آخر عمر میں آپ کی امت کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں، اور عبادت میں زیادہ کوشش کریں، اور بعض نے کہا: آپ نے ایک سال پہلے رمضان کے اخیر دہے میں اپنی بیویوں کی وجہ سے اعتکاف کو ترک کیا تھا، اور شوال میں اس اعتکاف کو ادا کیا تھا، تو دوسرے رمضان میں بیس دن اعتکاف کیا گویا پہلے رمضان کے اعتکاف کی بھی قضا کی «واللہ اعلم»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1769  
´اعتکاف کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۱؎ اور ہر سال ایک بار قرآن کا دور آپ سے کرایا جاتا تھا، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال دو بار آپ سے دور کرایا گیا ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1769]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل: 01)
قرآن پیش کر نے سے مراد قرآن مجید کا دور کرنا ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر سال رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جس قدر قرآن نازل ہو چکا ہوتا تھا اس کا دور کرتےتھے۔ (صحیح البخاري، الصوم،   با ب أجود ما کا ن النبی ﷺ یکون فی رمضان، حدیث: 1902))

(2)
آخری سا ل بیس دن اعتکاف کرنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زندگی کے آ خری حصے میں عبادت میں زیادہ جانفشانی سے کام لیا اور اعتکاف بھی چونکہ ایک عبادت ہے اس لئے اس میں بھی اضافہ فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک عشرہ فتح مکہ کے سا ل کے اعتکا ف کی تلا فی ہو کیو نکہ فتح مکہ کا غزوہ رمضا ن 8ھ میں پیش آیا رسول اللہ ﷺ 17/ رمضا ن کو فا تحانہ طو ر پر مکہ میں دا خل ہوئے اور انیس دن مکہ مکرمہ میں قیا م پذیر رہے اس لئے اس سال اعتکاف نہیں ہو سکا چنا نچہ رمضا ن 10/ ھ میں بیس دن اعتکا ف کیا واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1769   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2466  
´اعتکاف کس جگہ کرنا چاہئے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے، لیکن جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2466]
فوائد ومسائل:
معلوم ہوا کہ وسط رمضان میں بھی اعتکاف ہو سکتا ہے۔
شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قربِ اجل کا علم ہو گیا تھا اس لیے آپ عبادت میں بہت حریص ہو گئے تھے۔
اس رمضان میں جبرئیل امین علیہ السلام نے بھی آپ کے ساتھ قرآن مجید کا دو بار دَور کیا تھا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2466