صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
65. بَابُ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ:
باب: عرفہ کے دن روزہ رکھنا۔
حدیث نمبر: 1989
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَوْ قُرِئَ عَلَيْهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ النَّاسَ شَكُّوا فِي صِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ بِحِلَابٍ وَهُوَ وَاقِفٌ فِي الْمَوْقِفِ، فَشَرِبَ مِنْهُ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، (یا ان کے سامنے حدیث کی قرآت کی گئی)۔ کہا کہ مجھ کو عمرو نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں کریب نے اور انہیں میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہ عرفہ کے دن کچھ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک ہوا۔ اس لیے انہوں نے آپ کی خدمت میں دودھ بھیجا۔ آپ اس وقت عرفات میں وقوف فرما تھے۔ آپ نے دودھ پی لیا اور سب لوگ دیکھ رہے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1989  
1989. حضرت میمونہ ؓسے روایت ہے کہ لوگوں نے عرفہ کے دن نبی کریم ﷺ کے روزے میں شک کیا تو انھوں نے آپ کے پاس دودھ بھیجا جبکہ آپ عرفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ نے اس میں سے کچھ دودھ نوش فرمایا جبکہ لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1989]
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن وہب نے خود یہ حدیث یحییٰ کو سنائی یا عبداللہ بن وہب کے شاگردوں نے ان کو سنائی، دونوں طرح حدیث کی روایت صحیح ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس باب میں ان حدیثوں کو ذکر نہیں کیا جن میں عرفہ کے روزہ کی ترغیب ہے، جب کہ وہ حدیث بیان کی جس سے عرفہ میں آپ کا افطار کرنا ثابت ہے۔
کیوں کہ وہ حدیثیں ان کی شرط کے موافق صحیح نہ ہوں گی۔
حالانکہ امام مسلم نے ابوقتادہ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، عرفہ کا روزہ ایک برس آگے اور ایک برس پیچھے کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور بعض نے کہا عرفہ کا روزہ حاجی کو نہ رکھنا چاہئے۔
اس خیال سے کہ کہیں ضعف نہ ہوجائے اور حج کے اعمال بجالانے میں خلل واقع ہو۔
اور اس طرح باب کی احادیث اور ان احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1989   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1989  
1989. حضرت میمونہ ؓسے روایت ہے کہ لوگوں نے عرفہ کے دن نبی کریم ﷺ کے روزے میں شک کیا تو انھوں نے آپ کے پاس دودھ بھیجا جبکہ آپ عرفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ نے اس میں سے کچھ دودھ نوش فرمایا جبکہ لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1989]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاج کرام کو میدان عرفات میں نویں ذوالحجہ کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میدان عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
(مسندأحمد: 304/2)
اس دن روزہ نہ رکھنے کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے انسان کمزور ہو جائے گا۔
ممکن ہے کہ وہاں دعا، ذکر اور دیگر افعال خیر کے انجام دینے سے عاجز ہو جائے۔
واللہ أعلم۔
(2)
حجاج کرام کے علاوہ دیگر حضرات کے لیے اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے، چنانچہ حضرت ابو قتادہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہ مٹا دیتا ہے:
ایک گزشتہ سال اور ایک آئندہ سال کے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2746(1162) (3)
بعض معاصرین کا خیال ہے کہ غیر حجاج کے لیے یوم عرفہ کا روزہ مستحب ہے، خواہ ہمارے ہاں ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ ہی کیوں نہ ہو، یہ خیال بوجوہ محل نظر ہے۔
٭ ہر انسان اس بات کی طاقت نہیں رکھتا کہ یوم عرفہ کی تعیین کر سکے، اس لیے اسے اپنے حساب سے نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھنے کا پابند کیا جائے۔
٭ بعض مقامات پر تاریخوں کا اختلاف ہوتا ہے، یعنی ہمارے پاک و ہند میں یوم عرفہ کی آٹھ تاریخ ہوتی ہے جبکہ بعض مغربی ممالک ایسے ہیں جہاں یوم عرفہ کو دس تاریخ ہو سکتی ہے، اس لیے وہاں عید ہو گی اور عید کا روزہ رکھنا منع ہے، اس لیے روزے دار کو سعودی عرب کے یوم عرفہ سے وابستہ کرنا محل نظر ہے۔
ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ ہم اپنے حساب سے چاند کا اعتبار کریں، جس دن ذوالحجہ کی نو تاریخ ہو، اس دن کا روزہ رکھیں، خواہ سعودی عرب میں عید ہی کیوں نہ ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1989