صحيح البخاري
كِتَاب الصَّوْمِ -- کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
67. بَابُ الصَّوْمِ يَوْمَ النَّحْرِ:
باب: عیدالاضحی کے دن کا روزہ رکھنا۔
حدیث نمبر: 1995
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ قَزَعَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، قَالَ: سَمِعْتُ أَرْبَعًا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْجَبْنَنِي، قَالَ:" لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ مَسِيرَةَ يَوْمَيْنِ إِلَّا وَمَعَهَا زَوْجُهَا، أَوْ ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ، وَلَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى، وَمَسْجِدِي هَذَا".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قزعہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہادوں میں شریک رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چار باتیں سنی ہیں جو مجھے بہت ہی پسند آئیں۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی عورت دو دن (یا اس سے زیادہ) کے اندازے کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی اور محرم نہ ہو۔ اور عیدالفطر اور عید الاضحی کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز جائز نہیں اور چوتھی بات یہ کہ تین مساجد کے سوا اور کسی جگہ کے لیے «شد الرحال» سفر نہ کیا جائے، مسجد الحرام، مسجد الاقصیٰ اور میری یہ مسجد (مسجد نبوی)۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 578  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے تین مسجدوں کے (کسی کے لئے) کجاوے نہ باندھو۔ (یعنی) مسجد الحرام، میری اس مسجد اور مسجد اقصی (کے علاوہ)۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 578]
578 لغوی تشریح:
«لَا تُشَدُّ الرِّجَالُ» مجہول کا صیغہ ہے اور اس میں احتمال ہے کہ یہ فعل نفی ہو یا فعل نہی۔
«اِلرِّجَال» «رحل» کی جمع ہے اور وہ اونٹ کے کجاوے کو کہتے ہیں، جیسے گھوڑے کی کاٹھی ہوتی ہے۔ اور کجاوے باندھنا استعمال کر کے سفر سے کنایہ کیا گیا ہے کیونکہ عام طور پر سفر کے لیے ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور معنی یہ ہیں کہ حصول برکت و فضیلت کی نیت سے سفر نہ کیا جائے۔ اور ایک روایت میں «لَا تَشُدُّوا» یعنی نہی کا صیغہ جمع مذکر ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان تین مقامات کے علاوہ کسی بھی مقام کو باعث برکت سمجھ کر نیک اور صالح لوگوں کی زیارت کرنا، خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ یا وہاں نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کرنا درست نہیں۔
➋ تبرک کی تخصیص اس لیے ہے کہ ان تین مساجد کی طرف سفر اسی مقصد کے لیے ہوتا ہے، اس لیے ان کے علاوہ دوسرے مقامات کی طرف سفر کی ممانعت بھی اسی مقصد سے مختص ہے، البتہ دوسرے اغراض و مقاصد کے لیے سفر کرنا جائز ہے بلکہ بسا اوقات واجب ہے جس کی تفصیل الصارم المنکی وغیرہ مطول کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
➋ یہ حدیث ان تینوں مقامات کے شرف و فضل پر دلالت کرتی ہے اور اسے یہاں لانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان مقامات میں اعتکاف کیا جائے، وہاں عبادت اور ذکر و تلاوت کی مقدور بھر کوشش کی جائے۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 578   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1169  
´عورت کے تنہا سفر کرنے کی حرمت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ تین دن ۱؎ یا اس سے زائد کا سفر کرے اور اس کے ساتھ اس کا باپ یا اس کا بھائی یا اس کا شوہر یا اس کا بیٹا یا اس کا کوئی محرم نہ ہو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1169]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں تین دن کا ذکرہے،
بعض روایتوں میں دو اوربعض میں ایک دن کا ذکرہے،
اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ ایک یا دو یا تین دن کا اعتبارنہیں اصل اعتبارسفرکا ہے کہ اتنی مسافت ہو جس کو سفرکہا جا سکے اس میں تنہاعورت کے لیے سفرکرنا جائزنہیں۔

2؎:
محرم سے مراد شوہرکے علاوہ عورت کے وہ قریبی رشتہ دارہیں جن سے اس کا کبھی نکاح نہیں ہوسکتا،
جیسے باپ،
بیٹا،
بھائی،
بھتیجا اور بھانجا اوراسی طرح رضاعی باپ،
بیٹا،
بھائی،
بھتیجا اور بھانجا ہیں،
داماد بھی انہیں میں ہے،
ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اس کا سفر کرنا جائز ہے،
ان کے علاوہ کسی کے ساتھ سفرپرنہیں جا سکتی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1169   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1995  
1995. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے انھوں نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ جنگیں لڑی ہیں، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں، جنھوں نے مجھے بہت خوش کیا۔ آپ نے فرمایا؛ کوئی بھی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر دو دن کا سفر نہ کرے، نیز عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے دن کا روزہ نہیں ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعدکوئی (نفل) نماز نہیں تاآنکہ سورج طلوع ہوجائے اور نماز عصر کے بعد کوئی (نفل) نماز نہیں حتیٰ کہ غروب آفتاب ہوجائے اور تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کی طرف رخت سفرباندھنا جائز نہیں اور وہ یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری یہ مسجد، یعنی مسجد نبوی ﷺ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1995]
حدیث حاشیہ:
بیان کردہ تینوں چیزیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔
عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا خطرہ سے خالی نہیں اور عیدین کے دن کھانے پینے کے دن ہیں، ان میں روزہ بالکل غیر مناسب ہے۔
اسی طرح نماز فجر کے بعد یا نماز عصر کے بعد کوئی نماز پڑھنا ناجائز ہے اور تین مساجد کے سوا کسی بھی جگہ کے لیے تقرب حاصل کرنے کی غرض سے سفر کرنا شریعت میں قطعاً ناجائز ہے۔
خاص طور پر آج کل قبروں، مزاروں کی زیارت کے لیے نذر و نیاز کے طور پر سفر کئے جاتے ہیں، جو ہو بہو بت پرست قوموں کی نقل ہے۔
شریعت محمدیہ میں اس قسم کے کاموں کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔
حدیث لاتشد الرحال کی مفصل تشریح پیچھے لکھی جاچکی ہے۔
حضرت امام نووی ؒ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں:
فِيهِ بَيَانُ عَظِيمِ فَضِيلَةِ هَذِهِ الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ وَمَزِيَّتِهَا عَلَى غَيْرِهَا لِكَوْنِهَا مَسَاجِدَ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِمْ وَلِفَضْلِ الصَّلَاةِ فِيهَا وَلَوْ نَذَرَ الذَّهَابَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ لَزِمَهُ قَصْدُهُ لِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ وَلَوْ نَذَرَهُ إِلَى الْمَسْجِدَيْنِ الْآخَرَيْنِ فَقَوْلَانِ لِلشَّافِعِيِّ أَصَحُّهُمَا عِنْدَ أَصْحَابِهِ يُسْتَحَبُّ قَصْدُهُمَا وَلَا يَجِبُ وَالثَّانِي يَجِبُ وَبِهِ قَالَ كَثِيرُونَ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَأَمَّا بَاقِي الْمَسَاجِدِ سِوَى الثَّلَاثَةِ فَلَا يَجِبُ قَصْدُهَا بِالنَّذْرِ وَلَا يَنْعَقِدُ نَذْرٌ قَصْدُهَا هَذَا مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ الْعُلَمَاءِ كَافَّةً إِلَّا مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ الْمَالِكِيَّ فَقَالَ إِذَا نَذَرَ قَصْدَ مَسْجِدِ قُبَاءٍ لَزِمَهُ قَصْدُهُ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهِ كُلَّ سَبْتٍ رَاكِبًا وَمَاشِيًا وَقَالَ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ يَلْزَمُهُ قَصْدُ ذَلِكَ الْمَسْجِدِ أَيُّ مَسْجِدٍ كَانَ وَعَلَى مَذْهَبِ الْجَمَاهِيرِ لَا يَنْعَقِدُ نَذْرُهُ وَلَا يَلْزَمُهُ شَيْءٌ وَقَالَ أَحْمَدُ يَلْزَمُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي شَدِّ الرِّحَالِ وَإِعْمَالِ الْمَطِيِّ إِلَى غَيْرِ الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ كَالذَّهَابِ إِلَى قُبُورِ الصَّالِحِينَ وَإِلَى الْمَوَاضِعِ الْفَاضِلَةِ وَنَحْوِ ذَلِكَ فَقَالَ الشَّيْخُ أَبُو مُحَمَّدٍ الْجُوَيْنِيُّ مِنْ أَصْحَابِنَا هُوَ حَرَامٌ وَهُوَ الَّذِي أَشَارَ الْقَاضِي عِيَاضٌ إِلَى اخْتِيَارِهِ۔
امام نووی ؒ صحیح مسلم شریف کی شرح لکھنے والے بزرگ ہیں۔
اپنے دور کے بہت ہی بڑے عالم فاضل، حدیث و قرآن کے ماہر اور متدین اہل اللہ شمار کئے گئے ہیں۔
آپ کی مذکورہ عبارت کا خلاصہ مطلب یہ کہ ان تینوں مساجد کی فضیلت اور بزرگی دیگر مساجد پر اس وجہ سے ہے کہ ان مساجد کی نسبت کئی بڑے بڑے انبیا ؑ سے ہے یا اس لیے کہ ان میں نماز پڑھنا بہت فضیلت رکھتا ہے اگر کوئی حج یا عمرہ کے لیے مسجد حرام میں جانے کی نذر مانے تو اس کا پورا کرنا اس کے لیے لازم ہوگا۔
اور اگر دوسری مساجد کی طرف جانے کی نذر مانے تو امام شافعی ؒ اور ان کے اصحاب اس نذر کا پورا کرنا مستحب جانتے ہیں نہ کہ واجب اور دوسرے علماء اس نذر کا پورا کرنا بھی واجب جانتے ہیں اور اکثر علماء کا یہی قول ہے۔
ان تین کے سوا باقی مساجد کا نذر وغیرہ کے طور پر قصد کرنا واجب نہیں بلکہ ایسے قصد کی نذر ہی منقعد نہیں ہوتی۔
یہ ہمارا اور بیشتر علماءکا مذہب ہے۔
مگر محمد بن مسلمہ مالکی کہتے ہیں کہ مسجد قباءمیں جانے کی نذر واجب ہو جاتی ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺ ہر ہفتہ پیدل و سوار وہاں جایا کرتے تھے۔
اور لیث بن سعد نے ہر مسجد کے لیے ایسی نذر اور اس کا پورا کرنا ضروری کہا ہے، لیکن جمہو رکے نزدیک ایسی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی اور نہ اس پر کوئی کفارہ لازم ہے۔
مگر امام احمد ؒ نے قسم جیسا کفار لازم قرار دیا ہے۔
اور مساجد ثلاثہ کے علاوہ قبور صالحین یا ایسے مقامات کی طرف پالان سفر باندھنا اس بارے میں علماءنے اختلاف کیا ہے۔
ہمارے اصحاب میں سے شیخ ابومحمد جوینی نے اسے حرام قرار دیا ہے اور قاضی عیاض کا بھی اشارہ اسی طرف ہے اور حدیث نبوی جو یہاں مذکور ہوئی ہے وہ بھی اپنے معنی میں ظاہر ہے کہ خود نبی کریم ﷺ نے ان تین مذکورہ مساجد کے علاوہ ہر جگہ کے لیے بغرض تقرب الی اللہ پالان سفر باندھنے سے منع فرمایا ہے۔
اس حدیث کے ہوتے ہوئے کسی کا قول قابل اعتبار نہیں۔
خواہ وہ قائل کسے باشد۔
مذہب محقق یہی ہے کہ شد رحال صرف ان ہی تین مساجد کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی جگہ کے لیے یہ جائز نہیں۔
شد رحال کی تشریح میں یہ داخل ہے کہ وہ قصد تقرب الٰہی کے خیال سے کیا جائے۔
قبور صالحین کے لیے شد رحال کرنا اور وہاں جا کر تقرب الٰہی کا عقیدہ رکھنا یہ بالکل ہی بے دلیل عمل ہے اور آج کل قبور اولیاءکی طرف شدر حال تو بالکل ہی بت پرستی کا چربہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1995   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1995  
1995. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے انھوں نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ جنگیں لڑی ہیں، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں، جنھوں نے مجھے بہت خوش کیا۔ آپ نے فرمایا؛ کوئی بھی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر دو دن کا سفر نہ کرے، نیز عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے دن کا روزہ نہیں ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعدکوئی (نفل) نماز نہیں تاآنکہ سورج طلوع ہوجائے اور نماز عصر کے بعد کوئی (نفل) نماز نہیں حتیٰ کہ غروب آفتاب ہوجائے اور تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کی طرف رخت سفرباندھنا جائز نہیں اور وہ یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری یہ مسجد، یعنی مسجد نبوی ﷺ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1995]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بیان کردہ چار باتیں انتہائی کارآمد اور بنیادی قسم کی ہیں:
٭ عورت کا محرم کے بغیر سفر کرنا انتہائی خطرناک ہے۔
عورت کی عزت و ناموس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ وہ محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔
٭ عیدین کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔
ان میں روزہ رکھنا بالکل غیر مناسب اور اللہ تعالیٰ کی دعوت کو ٹھکرا دینے کے مترادف ہے۔
٭ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نفل پڑھنا ناجائز ہیں، البتہ سببی نوافل یا فرض نماز کی قضا ان اوقات میں دی جا سکتی ہے۔
٭ تین مساجد کے علاوہ دیگر مقامات کی طرف تقرب کی نیت سے رخت سفر باندھنا بھی شرعاً جائز نہیں، اسی طرح قبور صالحین کی طرف رخت سفر باندھنا اور وہاں تقرب الٰہی کے لیے عبادت کرنا بالکل بے بنیاد اور بلا دلیل ہے۔
(2)
امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عید الاضحیٰ کا روزہ درست نہیں۔
اگر کوئی اس دن روزے کی نذر مانتا ہے تو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1995