سنن ابن ماجه
كتاب النكاح -- کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
46. بَابُ : الأَكْفَاءِ
باب: (شادی میں) کفو کا بیان۔
حدیث نمبر: 1967
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابُورَ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْصَارِيُّ أَخُو فُلَيْحٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ ابْنِ وَثِيمَةَ النَّصْرِيّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ، فَزَوِّجُوهُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کر دو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیلے گا اور بڑی خرابی ہو گی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/النکاح 3 (1084)، (تحفة الأشراف: 15485) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عبد الحمید ضعیف راوی ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1868، لیکن متابعت کی وجہ سے حسن ہے)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ «کفو» کا اعتبار صرف دین اور اخلاق میں کیا جائے گا، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ چار چیزوں (دین، نسب آزادی اور پیشہ و صنعت میں) معتبر ہے، لیکن پہلا قول راجح ہے،اور اس کے قابل ترجیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1967  
´(شادی میں) کفو کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کر دو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیلے گا اور بڑی خرابی ہو گی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1967]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رشتہ کرتے وقت اخلاق و کردار اور دینی حالت کو پیش نظر رکھنا چائیے۔
ہم مرتبہ (کفو)
ہونے کا مطلب یہی ہے۔
اس مفہوم کی ایک حدیث باب 6 میں گزر چکی ہے (سنن ابن ماجة،، حدیث: 1858)

(2)
اگر دین کے علاوہ خاندان اورمال وغیرہ کو پیش نظر رکھا جائے تو کئی نیک لڑکیاں بےنکاح رہ جائیں گی۔
اور یہ چیز ان کےلیے تو دین کے لحاظ سے نیک نہ ہونےکی وجہ سےجھگڑے پیدا ہوں گے اور یہی مال و جمال یا اونچا خاندان مصیبت کا باعث بن جائے گا۔

(3)
  یہ روایت بعض حضرات کےنزدیک حسن ہے۔ (دیکھئے: إرواء الغلیل: 6/ 266، رقم: 1868، والصحیحة، رقم: 1022)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1967   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1084  
´قابل اطمینان دیندار کی طرف سے شادی کا پیغام آنے پر شادی کر دینے کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1084]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عبدالحمید بن سلیمان میں کچھ کلام ہے،
لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے،
دیکھئے:
الإ رواء رقم: 1868،
الصحیحة 1022)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1084