سنن ابن ماجه
كتاب النكاح -- کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
60. بَابٌ في الزَّوْجَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا قَبْلَ الآخَرِ
باب: میاں بیوی میں سے کوئی دوسرے سے پہلے مسلمان ہو تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2010
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ بِنِكَاحٍ جَدِيدٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس نئے نکاح پر بھیج دیا۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/النکاح 42 (1142)، (تحفة الأشراف: 8672)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/207) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس راوی ہیں)

وضاحت: ۱؎: صحیح یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو پہلے نکاح پر برقرار رکھا، اور دارقطنی نے کہا کہ یہ حدیث ثابت نہیں ہے، اور صواب ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح ہی سے لوٹا دیا۔ اور امام ترمذی کتاب العلم میں کہتے ہیں کہ میں نے بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا کہ اس باب میں ابن عباس کی حدیث عمرو بن شعیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں: تعجب ہے کہ اس ضعیف حدیث کو اصل بنا دیں اور اس سے صحیح حدیث کو رد کر دیں اور کہیں کہ وہ اصول کے خلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرف صحابہ کی ایک جماعت گئی ہے «ومن بعدہم»، ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام قبول کرنے والے آدمی اور اس کے ساتھ اس کی اسلام نہ لانے والی بیوی کے درمیان جدائی نہ کراتے، بلکہ جب دوسرا اسلام لاتا تو نکاح اپنے حال پر رہتا، جب تک وہ عورت دوسرا نکاح نہ کر لے، اور یہ سنت معلومہ اور مشہورہ ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ ابوسفیان نے مرالظہران میں جو خزاعہ کا علاقہ ہے، اسلام قبول کیا، اور وہاں فتح مکہ سے پہلے مسلمان تھے، تو وہ دارالاسلام ٹھہرا، اور ابوسفیان مکہ واپس چلے گئے، اور ان کی بیوی ہندہ جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، مکہ میں تھی، اس نے ابوسفیان کی داڑھی پکڑ کر کہا اس بوڑھے گمراہ کو قتل کر دو، پھر اس کے کافی دنوں بعد ہندہ نے اسلام قبول کیا، وہ دارالحرب میں مقیم تھی، اور کافر تھی، جب کہ ابوسفیان مسلمان تھے، اور عدت گزر جانے کے بعد ہندہ مسلمان ہوئی، لیکن دونوں کا نکاح قائم رہا، کیونکہ درحقیقت اس کی عدت نہیں گزری، یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو گئی، اور اسی طرح حکیم بن حزام کا حال گزرا، صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابوجہل دونوں کی بیویاں مکہ میں مسلمان ہوئیں اور مکہ دارالاسلام ہو گیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی حکومت وہاں قائم ہو گئی، اور عکرمہ یمن کی طرف بھاگے وہ دارالحرب تھا، اور صفوان بھی دارالحرب چل دیئے، پھر صفوان مکہ میں لوٹے تو وہ دارالاسلام تھا، اور جنگ حنین میں حاضر ہوئے، لیکن اس وقت تک کافر تھے، اس کے بعد مسلمان ہوئے اور ان کی بیوی پہلے ہی نکاح سے ان کے پاس رہیں، کیونکہ درحقیقت ان کی عدت نہیں گزری تھی، اور اہل مغازی نے لکھا ہے کہ ایک انصاری عورت مکہ میں ایک شخص کے پاس تھی، پھر وہ مسلمان ہو گئی اور اس نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، اس کے بعد اس کا شوہر آیا وہ عدت میں تھی، تو اپنے پرانے نکاح ہی پر شوہر سے جا ملی۔ (الروضہ الندیہ)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 862  
´کفو (مثل، نظیر اور ہمسری) اور اختیار کا بیان`
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے پاس جدید نکاح کر کے واپس بھیجا۔ ترمذی نے کہا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سند کے اعتبار سے عمدہ ترین ہے مگر عمل عمرو بن شعیب سے مروی حدیث پر ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 862»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، النكاح، باب ما جاء في الزوجين المشركين يسلم أحدهما، حديث:1142.* حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس.»
تشریح:
امام ترمذی رحمہ اللہ کا جو یہ قول ہے: عمل عمرو بن شعیب والی حدیث پر ہے۔
تو اس سے مراد صرف اہل عراق کا عمل ہے نہ کہ تمام فقہاء و محدثین کا۔
اور بلاشبہ ان کا ضعیف حدیث پر عمل کرنا اور قوی کو ترک کر دینا‘ ضعیف حدیث کو قوی نہیں کر سکتا بلکہ ان کا یہ طرز عمل خود ان کے عمل کے ضعف کا باعث ہے۔
(سبل السلام)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 862   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1142  
´اگر مشرک و کافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لڑکی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے پاس نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹا دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1142]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث ابن عباس کی حدیث کے جو آگے آ رہی ہے مخالف ہے اس میں ہے کہ پہلے ہی نکاح پر آپ نے انہیں لوٹا دیا نیا نکاح نہیں پڑھایا اوریہی صحیح ہے۔

نوٹ:
(اس کے راوی حجاج بن ارطاۃ ایک تو ضعیف ہیں،
دوسرے سند میں ان کے اور عمروبن شعیب کے درمیان انقطاع ہے،
اس کے بالمقابل اگلی حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1142