صحيح البخاري
كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ -- کتاب: نماز تراویح پڑھنے کا بیان
1. بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ:
باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 2009
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں (بیدار رہ کر) نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور لوگوں کا یہی حال رہا (الگ الگ اکیلے اور جماعتوں سے تراویح پڑھتے تھے) اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اور عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی ایسا ہی رہا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 157  
´قیام رمضان کی فضیلت`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رمضان (کے مہینے) میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 157]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2009، ومسلم 759/173، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ یہاں قیام سے مراد قیام رمضان (تراویح، تہجد) ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام رمضان کے بارے میں فرمایا:
«إنه مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ»
بے شک جو امام کے ساتھ نماز ختم ہونے تک قیام کرتا ہے تو اسے ساری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے۔ [سنن الترمذي:806 و إسناد صحيح و صححه ابن خزيمه:2206 وابن حبان، الموارد:919 وابن الجارود: 403 وقال الترمذي هذا حديث حسن صحيح]
➋ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔ [موطأ امام مالك رواية يحييٰ 115/1 ح 249 وسنده صحيح، وقال النيموي فى آثار سن 775 وإسناد صحيح واحتج به الطحاوي فى معاني الآثار 293/1]
➌ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب بإحدىٰ عشرة ركعة ..»
ہم عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں گیارہ رکعات کا قیام کرتے تھے۔ [سنن سعيد بن منصور حواله الحاوي للفتاوي 349/1 وسنده صحيح]
● اس کے مقابلے میں خالد بن مخلد معرفة السنن والآثار [305/2 ح 1365] والی روایت شاذ (ضعیف) ہے۔
➍ طحطاوی حنفی لکھتے ہیں:
«لأن النبى عليه الصلوة والسلام لم يصلها عشرين بل ثماني»
کیونکہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس (رکعات) نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھی ہیں۔ [حاشية الطحطاوي على الدرالمختار 295/1]
➎ ابوبکر بن العربی المالکی (متوفی 543ھ) نے کہا:
اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں (یہی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قیام ہے اور اس کے علاوہ جو اعداد ہیں، ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔ [عارضة الاحوذي شرح سنن الترمذي 19/4]
➏ قیام کا اجر و ثواب ایمان اور اخلاص کے ساتھ مشروط ہے۔ نیز دیکھئے میری کتاب تعداد رکعات قیام رمضان کا حقیقی جائزه۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 29   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 37  
´قیام رمضان بھی ایمان کا ایک جزو ہے`
«. . . أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی رمضان میں (راتوں کو) ایمان رکھ کر اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 37]

تشریح:
ترجمہ باب کا مقصد قیام رمضان کو بھی ایمان کا ایک جزو ثابت کرنا اور مرجیہ کی تردید کرنا ہے جو اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قرار دیتے ہیں۔ قیام رمضان سے تراویح کی نماز مراد ہے۔ جس میں آٹھ رکعات تراویح اور تین وتر ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں تراویح کی آٹھ رکعات کو باجماعت ادا کرنے کا طریقہ رائج فرمایا تھا۔ [مؤطا امام مالك]
آج کل جو لوگ آٹھ رکعت تراویح کو ناجائز اور بدعت قرار دے رہے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اللہ ان کو نیک سمجھ بخشے۔ آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 37   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1326  
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اور (اس کی راتوں میں) قیام کیا، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1326]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
ہر عمل کے لئے خلوص نیت بہت ضروری ہے۔
روزے اور قیام کا ثواب بھی تب ہی مل سکتا ہے۔
جب یہ عمل محض اللہ کی رضا کے حصول کےلئے ہو۔
ریاکاری کے طور پرنہ ہو۔

(2)
گزشتہ گناہوں کی معافی سے عام طور پر صغیرہ گناہوں کی معافی مراد لی گئی ہے۔
لیکن بعض اوقات کسی بڑی نیکی کی وجہ سے کبیرہ گناہ معاف ہوسکتا ہے۔
روزہ اور قیام جس قدر خلوص نیت کا حامل اور سنت کے مطابق ہوگا۔
اتنا ہی زیادہ گناہوں کی معافی کا باعث ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1326   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 568  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرتا ہے اس کے پہلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 568]
568 لغوی تشریح:
«بَابُ الْاعَتِكَافُ» اعتکاف کے لغوی معنی روکنے، بند کرنے، ٹھہرنے اور لازم رہنے کے ہیں۔ اور شرعی مفہوم یہ کہ مسجد میں ایک خاص کیفیت سے اپنے آپ کو روکنا۔ اور قیام رمضان سے مراد رات کو نماز یا قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ عبادت میں مصروف رہنا ہے۔ اور اس کا غالب استعمال نماز تراویح پر ہوتا ہے۔
«اِيْمَاناً» مفعول لہ ہونے کی بنا پر منصوب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب کے وعدے پر یقین رکھتے ہوئے۔ اور یہ بھی مفہوم ہو سکتا ہے کہ اپنے ایمان کی وجہ سے قیام کرتا ہے، یعنی اس کا ایمان ہی اسے قیام رمضان پر آمادہ کرتا ہے جس میں اخلاص نیت کی طرف اشارہ اور ریا و نمائش سے اجتناب مقصود ہے۔
«اِحْتِسَابًا» یعنی اللہ تعالیٰ سے ثواب اور اس کی رضا کی نیت سے قیام کرتا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں کا قیام کس قدر عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں عموماً آٹھ رکعت اور تین وتر پڑھتے اور قیام بہت لمبا کرتے تھے بلکہ جن تین راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح پڑھائی ان میں بھی آپ نے گیارہ رکعات ہی پڑھیں۔ [قيام الليل للمروزي، كتاب قيام رمضان، ص: 155۔ طبع المكتبة الاثرية، سانگله هل]
اس لیے سنت نبوی تو بہر نوع گیارہ رکعت ہی ہے۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس سے زائد رکعتوں کو سنت نہیں بلکہ نفل قرار دیا ہے۔ [فتح القدير: 334] ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 568   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 683  
´ماہ رمضان کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ ۱؎ بخش دئیے جائیں گے۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا تو اس کے بھی سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 683]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 683   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1371  
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر تاکیدی حکم دئیے رمضان کے قیام کی ترغیب دلاتے، پھر فرماتے: جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع تک یہی معاملہ رہا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح عقیل، یونس اور ابواویس نے «من قام رمضان» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور عقیل کی روایت میں «من صام رمضان وقامه» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1371]
1371. اردو حاشیہ: فائدہ: رمضان کی راتوں کا قیام مسنون و مستحب عمل ہے اور انتہائی فضیلت کا حامل، مگر واجب نہیں ہے۔ اور اس میں غفلت کرنا بہت بڑی محرومی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1371   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2009  
2009. حضرت ابوہریرہ ؓ سے ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا تو اسکے پہلے سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو معاملہ اسی طرح رہا، پھر حضرت ابو بکر ؓ کے دور خلافت اور حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور حکومت میں بھی یہی حال رہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2009]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے قیام رمضان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ ایسا کرنے سے انسان کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے نسائی کے حوالے سے لکھا ہے:
بعض روایات میں گزشتہ گناہوں کے ساتھ آئندہ گناہوں کی معافی کا بھی ذکر ہے، (سنن الکبرٰی للبیھقي: 88/2، حدیث: 2512)
پھر اس پر اشکال وارد کیا ہے کہ معافی کے لیے گناہوں کا وجود ضروری ہے۔
جب گناہ نہیں ہیں تو معافی کس چیز کی ہے؟ پھر اپنی طرف سے جواب دیا ہے:
اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں سے محفوظ رکھے گا جیسا کہ اہل بدر کے متعلق فرمایا:
آج کے بعد تم جو عمل بھی کرو گے میری طرف سے معافی کا اعلان ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آئندہ جو گناہ ہوں گے وہ اللہ کے ہاں معاف شدہ ہیں۔
(فتح الباري: 319/4) (3)
حدیث کے آخر میں ابن شہاب کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز تراویح کی جماعت کا باقاعدہ اہتمام نہیں تھا، حضرت عمر ؓ نے اسے جاری فرمایا جس کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔
(4)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ مسجد کے ایک کونے میں اکٹھے نماز پڑھ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:
یہ کیا ہے؟ جواب دیا گیا کہ انہیں حضرت ابی بن کعب ؓ باجماعت نماز تراویح پڑھا رہے ہیں تو آپ نے ان کی تصویب فرمائی اور اس اقدام کو مستحسن قرار دیا لیکن یہ روایت مسلم بن خالد کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔
صحیح موقف یہی ہے کہ باقاعدہ نماز تراویح کے لیے جماعت کا اہتمام حضرت عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں کیا۔
(فتح الباري: 319/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2009