سنن ابن ماجه
كتاب الطلاق -- کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
20. بَابُ : الرَّجُلُ يُخَيِّرُ امْرَأَتَهُ
باب: مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔
حدیث نمبر: 2053
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ سورة الأحزاب آية 29 دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْكِ، أَنْ لَا تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ"، قَالَتْ: قَدْ عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَتْ: فَقَرَأَ عَلَيَّ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا سورة الأحزاب آية 28 الْآيَاتِ، فَقُلْتُ: فِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ قَدِ اخْتَرْتُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «وإن كنتن تردن الله ورسوله» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آ کر فرمایا: عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کر لینا جلد بازی نہ کرنا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ آیت پڑھی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» (سورة الأحزاب: 28) اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش و زیبائش پسند کرتی ہو تو آؤ میں تم کو کچھ دے کر اچھی طرح رخصت کر دوں، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور یوم آخرت کو چاہتی ہو تو تم میں سے جو نیک ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ... (یہ سن کر) میں بولی: کیا میں اس میں اپنے ماں باپ سے مشورہ لینے جاؤں گی! میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کر چکی ہوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب 4 (4785)، 5 (4786تعلیقاً)، سنن النسائی/النکاح 2 (3203)، الطلاق 26 (3470)، (تحفة الأشراف: 16632)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الطلاق 4 (1475)، سنن الترمذی/تفسیر الأحزاب (3204)، مسند احمد (6/78، 103، 153، 163، 185، 248، 264) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں سے اسی طرح کہا، لیکن سب نے اللہ و رسول کو اختیار کیا، اور دنیا پر خاک ڈالی، اللہ تعالی کی لعنت دنیا کی چار دن کی بہار پر ہے، پھر آخر اللہ کے پاس جانا ہے، پس آخرت کی بھلائی سب پر مقدم ہے، دنیا تو بری یا بھلی کسی بھی طرح گزر جاتی ہے، لیکن آخرت ہمیشہ رہنا ہے، اللہ آخرت سنوارے۔ آمین۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2053  
´مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «وإن كنتن تردن الله ورسوله» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آ کر فرمایا: عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کر لینا جلد بازی نہ کرنا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ آیت پڑھی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» (سورة الأحزاب: 28) اے نبی! اپنی بیویو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے ان تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا۔

(2)
  اس میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی رسو ل اللہﷺ سے محبت کا بیان ہے۔

(3)
  امہات المومنین کے عظیم ایمان اور آخرت کےاجر و ثواب کی طلب کا ذکر ہے جس کی وجہ سے انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت کی بجائے آخرت کے ثواب کے حصول کا فیصلہ فرمالیا۔

(4)
رسول اللہﷺ کی یہ خواہش کہ والدین سے مشورہ کرکے جواب دیں، اس لیے تھی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کم عمری کی وجہ سے کوئی غلط جذباتی فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔

(5)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کے ایمان کی پختگی اور ایمانی فراست پر نبیﷺ کا اعتماد۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2053